غزہ اسرائیلی فوج کے لیے ایک ایسی دلدل ثابت ہو رہا ہے، جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ صہیونی فورسز کے قدم دھنستے جا رہے ہیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے 300 سے زاید فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور ان خاندانوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو اپنے بیٹے اس پٹی میں کھو رہے ہیں۔ اس صورتِ حال کے پیش نظر جنگ بندی کی آوازیں بھی بلند ہونے لگی ہیں اور بعض افراد کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کی دلدل میں مکمل طور پر پھنس چکا ہے۔
اسرائیلی اخبار “ہارٹز” نے وزارتِ دفاع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اپریل 2024 سے اب تک 316 فوجی اور سیکورٹی اداروں کے افسران و اہلکاروں کے علاوہ 79 عام اسرائیلی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
وزارتِ دفاع نے مزید کہا کہ غزہ پر حملے کے آغاز (اکتوبر 2023) سے اب تک اسرائیل میں “سوگوار خاندانوں” کی تعداد تقریباً 6 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ وزارت نے یہ بھی وضاحت کی کہ عز الدین القسام بریگیڈ، جو حماس کی عسکری شاخ ہے، کی قید سے 139 اسرائیلی شہری زندہ واپس آئے ہیں، جبکہ اب تک 38 لاشیں غزہ سے واپس لائی جا چکی ہیں اور 40 اسرائیلی اب بھی قید میں ہیں، جن میں فوجی اور پولیس اہلکار شامل نہیں۔
شدید اختلافات:
اسی تناظر میں “یدیعوت احرونوت” اخبار نے یہ انکشاف کیا ہے کہ غزہ پر بمباری کے حوالے سے فضائیہ اور جنوبی کمانڈ کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں اور اگر ان اختلافات کو حل نہ کیا گیا تو یہ اعتماد کا ایک حقیقی بحران جنم لے سکتا ہے۔
اخبار نے ایک اعلیٰ سیکورٹی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ فضائیہ کو جنوبی کمانڈ سے غزہ میں شہری ہلاکتوں کی زیادہ تعداد پر تحقیقات میں تعاون نہیں مل رہا۔ اس نے مزید وضاحت کی کہ فضائیہ “غیر مطمئن” ہے غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد سے جو جنوبی کمانڈ کے منتخب اہداف پر فضائی حملوں کے نتیجے میں ہو رہی ہیں۔
فضائیہ کے پائلٹس کو ابتدائی طور پر شہری ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے تخمینے دیئے گئے تھے، لیکن حملوں کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ہلاکتوں کی تعداد اس تخمینے سے بہت زیادہ تھی۔
غزہ پر جاری حملے اور اس کے اسرائیل کے اندر اثرات کے حوالے سے اسرائیلی اخبار “معاريف” نے بھی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اسرائیل غزہ کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔ لہٰذا اسے ایک معاہدے تک پہنچنے کی ضرورت ہے، چاہے اس کی قیمت زیادہ ہو۔
اسی سیاق میں، اسرائیل کی ڈیموکریٹس پارٹی کے رہنما یائر گولان نے غزہ میں جنگ کے جاری رہنے سے خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل ابھی تک اس جنگ کے نتیجے میں خون کی قیمت ادا کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت خود کو ایسی جنگ کی اجازت نہیں دے سکتی جو ہمیشہ کے لیے جاری رہے اور اس وقت کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک یہ ہے کہ یرغمالیوں کو واپس لایا جائے اور جنگ کو ایک سیاسی اور سیکورٹی معاہدے کے ذریعے ختم کیا جائے، جو حماس کی حکمرانی کا خاتمہ کرے۔