قبل اس کے کہ آپ اس خوف میں مبتلا ہوجائیں کہ یہ احکام الہی کسی خونخوار بلا کا نام ہے؟ آپ کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ احکام الہی سے متصادم قانون سازی کے ممنوع ہونے کا کیا مطلب ہے۔
اس کا یہ مطلب ہے کہ کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جاسکتا جو شہری کو دیئے گئے خدائی حق کو تلف کرے یا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے کسی آڈر کو ریجیکٹ کرے۔ مثلا اللہ کے رسول ﷺ نے ظالم بادشاہ کے خلاف آواز بلند کرنے یعنی سیاسی سرگرمی کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ پارلیمنٹ ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو شہری کو اس سرگرمی سے روکے۔ یہیں سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اگر نقص امن کا خطرہ ہے تو تب تو ٹھیک ہے لیکن نقص امن کے خطرے کے بغیر دفعہ 144 کا نفاذ اسلام سے متصادم سمجھا جائے گا۔ کیونکہ نقص امن کے خطرے کے علاوہ اس کا استعمال شہری سے کلمہ حق بلند کرنے کا حق چھیننے کے مترادف ہوگا۔
اسی طرح اللہ کا ایک حکم یہ ہے کہ مرد اپنی ناف سے لے کر گھٹنوں تک اور عورت سر کے بالوں سے لے کر ٹخنوں تک کا حصہ نامحرموں کے سامنے ڈھک کر رکھے گی۔ اور ظاہر ہے یہ حکم مسلمانوں کو ہے۔ چنانچہ ہماری پارلیمنٹ ایسا قانون نہیں بنا سکتی جس میں عورت کو بکنی پہن کر پبلک پلیس پر آنے کی اجازت ہو۔
قانون سازی کے اس باب میں اللہ سبحانہ و تعالی نے لگ بھگ پورا نظام قانون سازی ہی اپنے بندوں کی صلاحیت پر چھوڑ دیا ہے۔ حتٰی کہ جرم و سزا کے باب میں بھی کل پانچ سزائیں ہیں جنہیں حدود کہا جاتا ہے۔ ان سزاؤں میں کوئی رد و بدل نہیں ہوسکتا۔ باقی پورے کا پورا نظام قانون مسلم قانون دانوں کے شعور پر چھوڑ دیا۔ چنانچہ اگر آپ قرونِ اولٰی کی فقہ کی کتب دیکھیں تو بہت سے کیسز میں فقہاء کسی جرم کی کوئی سزا “تجویز” کرکے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتے ہیں:
“یا جیسی سزا قاضی (جج) مناسب سمجھے”
ایسے بہت سے قوانین ہیں جن میں سزا تجویز بھی کی گئی ہے اور ساتھ ہی اسے جج کی مرضی پر بھی چھوڑ دیا گیا ہے۔ یعنی جج اپنی فراست کے مطابق کوئی اور سزا بھی دے سکتا ہے۔ اس کی بہترین مثال وہ سزائیں ہیں جو اس حالیہ زمانے میں بعض جج یوں دے دیتے ہیں کہ ملزم سے کہتے ہیں “اچھا تم اتنے دن اپنی گلی میں جھاڑو دو”۔ اگر آپ نیٹ پر سرچ کریں گے تو خود مغربی ججز کی جانب سے بھی دی گئی ایسی دلچسپ سزائیں نظر آجائیں گی جن کا قانون کی کتب میں ذکر تک نہیں۔ اس پورے معاملے میں انتہائی قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اللہ کی طے کردہ سزائیں تو صرف پانچ ہیں۔ باقی نظام جزا و سزا مسلمانوں نے خود تشکیل دینا ہے۔ تو کیا اب یہ کہا جائے گا کہ اس نظام قانون میں چار سزائیں تو اسلامی ہیں اور باقی سب سیکولر سزائیں ہیں؟ نہیں ! قطعاً نہیں، بلکہ مسلمانوں کا تشکیل کردہ یہ پورا نظام قانون ہی “اسلامی قانون” قرار ہائے گا۔ اور “اسلامی” لفظ کا یہ مطلب ہوگا کہ اس پیکج کی تشکیل میں اسلام کے اصولوں کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ بشرطیکہ کوئی قانون احکام الہی سے متصادم نہ ہو۔ سو آپ بتایئے، اسلامی قانون میں غالب حصہ کن کا ہوا؟ اللہ کا یا مسلم ریاست کی پارلیمنٹ کا؟
اسی طرح آپ نظام معیشت کو لے لیجئے۔ وہاں پابندی ایک ہی ہے۔ سود حرام ہے۔ یعنی آپ کا نظام معیشت سودی نہیں ہوگا۔ لیکن جب مسلمان حالتِ زوال میں ہوں، اور دنیا سکڑ کر گویا ایک ریاست بن چکی ہو جس میں بین الاقوامی قانون اور اداروں پر مسلمانوں کا نہیں بلکہ غیر مسلموں کا کنٹرول ہو اور کوئی ملک ان بین الاقوامی اداروں و قوانین کی حدود سے نکل کر تجارتی سرگرمیاں نہ کرسکتا ہو تو ایسی صورت میں مجبوراً سودی نظام میں رہنے کی اجازت بھی ہے، جو اسلام کے فلیکس ایبل ہونے کی دلیل ہے۔ وہ یہ کہتا ہی نہیں کہ تم کسی بھی صورت میں سودی کاروبار نہیں کرسکتے۔ غیر سودی کاروبار ہر حال میں واحد آپشن ہے۔
مجبوری کا تو اسلام اس حد تک خیال رکھتا ہے کہ مریض کو نماز میں اس کی تکلیف کے مطابق ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے۔ مثلاً کھڑے نہیں ہوسکتے، چکر آ رہے ہیں تو بیٹھ کر پڑھ لو، بیٹھ کر بھی جھک نہیں سکتے تو پورے جسم کی بجائے صرف سر کے اشارے سے رکوع و سجود کر لو، سر بھی نہیں جھکا سکتے تو پلکوں کے اشارے سے رکوع سجدے کر لو۔ اسی طرح یہ کہ قحط ہے یا کسی ایسی جگہ گھر گئے ہو جہاں بھوک سے جان جانے کا خطرہ ہے اور حلال خوراک دستیاب نہیں تو حرام کھا لو مگر جان بچا لو۔ کوئی کنپٹی پر پستول رکھ کہتا ہے کہ اللہ یا اس کے رسول ﷺ کا انکار کر ورنہ بھیجا اڑاتا ہوں تو جو وہ کہتا ہے وہ کرلو اور جان بچاؤ، ہاں دل میں ایمان پختہ رکھنا جہاں اس کے ابا حضور بھی نہیں جھانک سکتے۔
ایک اہم چیز یہ کہ اسلام نظم اجتماعی کے صرف بڑے امور میں ہی اصول مہیا نہیں کرتا۔ بلکہ یہ بظاہر چھوٹے نظر آنے والے امور میں بھی اصول متعین کرتا ہے۔ مثلاً راستے اور شاہراہوں کا معاملہ ہی دیکھ لیجئے۔ اس معاملے میں وہ راستوں میں بیٹھ یا کھڑے ہوکر گپیں ہانکنے سے ہی منع نہیں کرتا بلکہ یہاں تک پابندی لگاتا ہے کہ ملٹری کانوائے شاہراہ عام کا استعمال نہیں کریں گے۔ کیوں؟ کیونکہ اس سے عام شہری کی آمد و رفت ہی متاثر نہیں ہوتی بلکہ یہ کام بڑی سطح پر ہونے سے شہروں کے سارے معمولات درہم برہم ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
پرانے وقتوں میں گھوڑوں وغیرہ سے سفر ہوتا تھا، سو انہیں تو شاہراہوں کی ضرورت نہ ہوتی۔ مگر مشینی دور میں ملٹری کانوائے بھی سڑکوں کے محتاج ہیں۔ چنانچہ اس مسئلے کو یوں حل کرلیا گیا ہے کہ ایک تو ملٹری کانوائے کے لئے اوقات ایسے مقرر کر لئے گئے ہیں جو کم رش والے ہوتے ہیں اور شہریوں کی اکثریت گھروں میں ہوتی ہے۔ اور ساتھ ہی کانوائے اس بات کے بھی پابند کردیئے گئے ہیں کہ یہ سڑک کی انتہائی بائیں جانب والی لین استعمال کریں گے۔ سینٹرل لینز کے استعمال کا حق صرف شہریوں کو ہوگا۔
مگر شاہراہوں کی نسبت سے ایک مسئلہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بدستور سنگین شکل میں موجود ہے۔ اور یہ مسئلہ ہے سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں کے لئے شاہراہوں کے استعمال کا۔ حد یہ ہے کہ اس حوالے سے مذہبی جماعتیں بھی یا تو شعور نہیں رکھتیں یا پھر اللہ کے رسول ﷺ کے احکامات کی شعوری خلاف ورزی کرتی ہیں۔ چنانچہ پارلیمنٹ یہ قانون سازی کرسکتی ہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتیں سیاسی سرگرمیوں کے لئے صرف اس صورت ہی شاہراہوں کا استعمال کر سکتی ہیں جب پورا شہر ہی کسی سرگرمی کے لئے نکل آئے۔ گویا کیفیت حقیقی معنی میں ملین مارچ والی ہوجائے۔ یہ جو چند سو یا چند ہزار کی ریلیاں سڑکوں پر آجاتی ہیں یہ ممنوع ہوں گی۔ اس ضمن میں اگر مرتکب سیاسی جماعتوں کے لئے بھاری سزاؤں کا بھی تعین کرلیا جائے تو معاملہ مزید آسان ہوسکتا ہے۔ مثلاً سیاسی سرگرمی کے کے لئے سڑک کے استعمال پر بھی محاسبہ کیا جائے اور اس دوران اگر کسی ایمبولینس وغیرہ میں کوئی مریض فوت ہوجائے تو اسے قتل کا درجہ دیدیا جائے اور مقدمہ متعلقہ جماعت پر قائم کردیا جائے۔
اسی طرح آپ نظام تعلیم کا معاملہ بھی لے لیجئے۔ کیا اللہ سبحانہ و تعالی یا اللہ کے رسول ﷺ نے کوئی نظام تعلیم یا نصاب تعلیم مسلط کیا ہے؟ قطعاً نہیں۔ یہ جو آپ درس نظامی کی صورت ایک نصاب بلکہ بوسیدہ سا نظام دیکھتے ہیں یہ تو علماء کا دینی تعلیم کی نسبت سے اپنے لئے بنایا ہوا نظام ہے۔ کچھ کتب انہوں نے مختلف کلاسز کے لئے منتخب کر رکھی ہیں۔ اور ان کا ماننا ہے کہ اگر یہ نصاب کوئی پورا پڑھ لے تو اسے دین کا عالم مانا جائے گا۔ گویا خود علماء کا نصاب بھی آسمان سے مسلط کردہ نہیں بلکہ انہی کا تشکیل کردہ ہے۔ اور اس کی بھی پرائیویٹ سطح کی نوبت اس لئے آئی کہ اسلام کے نام پر بنائے گئے ملک میں اسلامی تعلیم ہی سرکاری ترجیحات سے خارج ہے۔ اگر یہ تعلیم بھی سرکار نے اپنے ذمہ لی ہوتی تو پرائیویٹ مدارس کی نوبت کیوں آتی؟ گویا یہ بات بھی طے ہوئی کہ اسلامی نظام میں تعلیم جیسا اہم ترین ذیلی نظام بھی لوگ طے کریں گے۔ بس اس اصول کا خیال رکھنا ہوگا کہ یہ نظام تعلیم طالب علموں کو خدا کا باغی نہ بنائے۔
یہ عرض کرکے بات سمیٹتے ہیں کہ اس تحریر کے ذریعے ہم آپ کی خدمت میں اسلامی نظام نہیں پیش کر رہے تھے۔ اس کے لئے تو کتاب جتنا حجم درکار ہے۔ ہم بس آپ کے سامنے یہ واضح کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اسلامی نظام کی تشکیل کا لگ بھگ 90 فیصد حصہ اللہ سبحانہ و تعالی نے مسلمانوں کے شعبہ قانون پر چھوڑ رکھا ہے۔ اور اس کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ ارتقاء کے نتیجے میں تمدن ہی اپنی شکل نہیں بدلتا بلکہ نت نئی چیزوں کی ایجاد سے نت نئے سوال کھڑے ہوتے ہیں جس کے لئے نئی قانون سازی کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً سامنے کی چیز ہے کہ روایتی میڈیا یعنی اخبارات، جرائد، کتب، اور ٹی وی چینلز کے حوالے سے تو قوانین موجود تھے۔ مگر جب 2005ء کے آس پاس “سوشل میڈیا” نام کی ایک بالکل ہی نئی چیز وجود میں آگئی تو اس کے لئے الگ سے قوانین کی ضرورت پیش آگئی۔
سو یہ جو ہمارے ماڈرن ذہن میں ایک خوف پایا جاتا ہے کہ اسلامی نظام شاید جہازوں سے اتر کر اونٹوں اور گھوڑوں کے دور سفر میں لوٹنے کا نام ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے۔ “نظام” کے متعلق اللہ کا حکم بنیادی طور پر تین اصولوں پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کا نظام باہمی مشاورت پر مبنی ہوگا۔ یعنی پارلیمنٹ کو بالا دستی ہوگی۔ دوسرا یہ کہ حقوق انسانی کی حفاظت کی جائے گی۔ اور تیسرا یہ کہ حلال و حرام کی تمیز رکھی جائے گی۔ان تین اصولوں کا پابند رہ کر اب مسلمان جیسا چاہیں اپنا نظام تشکیل دیدیں۔ اگر ان کا بنایا ہوا نظام ان اصولوں کا پابند ہوا۔ اور دین کے کسی حکم سے متصادم نہ ہوا تو یہی اسلامی نظام کہلائے گا۔ عین ممکن ہے کوئی سوچے کہ بھئی آپ نے تو اللہ کی حاکمیت والا معاملہ ہی گول کردیا۔ تو جانِ عزیز، مذکورہ تین اصولوں کی پابندی اللہ کی حاکمیت تسلیم کرنا ہی تو ہے۔ (ختم شد)