اسلام نے یہودیت کو کیسے بچایا؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

موجودہ دور میں یہ دعویٰ مضحکہ خیز محسوس ہوسکتا ہے کہ اسلام نے یہودیت کی بقاء میں مدد کی یا اسے بچایا کیونکہ اسلام اور صیہونیت کے مابین ازلی و ابدی دشمنی ہرکس و ناکس کے علم میں ہے تاہم کسی بھی تاریخی حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کے موقعے پر یعنی 570 عیسوی کے برس میں یہودی مذہب کے پیروکارمعدومیت کے خطرات سے دوچار تھے، تاہم جیسے ہی اسلام آیا، یہودیوں کو حیاتِ نو میسر آئی اور ایک ایسا فریم ورک سامنے آیا جس کے تحت نہ صرف یہ کہ یہودی زندہ بچ گئے بلکہ ترقی کی منازل بھی طے کرنے لگے۔ یہودی ثقافتی خوشحالی کی بنیادیں قرونِ وسطیٰ کے جدید دور میں رکھی گئیں۔

ٹینیسی، نیش ول میں وینڈر بلٹ یونیورسٹی کے تاریخ، کلاسیکی و یہودی علوم کے ماہر پروفیسر ڈیوڈ جے واسیرسٹین (جنہیں ہم آسانی کیلئے آگے چل کر صرف پروفیسر واسیرسٹین ہی کہیں گے) نے مئی 2012میں لندن یونیورسٹی آف اسکول اورئینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز میں ایک دلچسپ تقریر کی جس میں مضبوط دلائل دیتے ہوئے اس حقیقت سے نقاب اٹھایا گیا کہ اسلام نے یہودیت کو کس طرح حیاتِ ثانی عطا کی۔

یہودی علوم کے ماہر پروفیسر واسیرسٹین نے بیان کیا ہے کہ اسلام کی آمد سے قبل چوتھی اور ساتویں صدی کے مابین مسیحیت میں جبری طور پر تبدیل ہونے کے باعث رومی سلطنت کے زیر انتظام یہودیت کا زوال اور خاتمہ ہونے والا تھا۔ آہستہ آہستہ سلطنتِ روم نے یہودیوں کوان کے بنیادی انسانی و مذہبی حقوق سے محروم کیا جبکہ عوام انہیں معاشرے سے نکال کر مذہبی فرائض کی انجام دہی تک سے روک رہے تھے۔

رومی سلطنت کے ساتھ ساتھ بازنطینی سلطنت میں بھی فارسیوں کے طویل عسکری و سیاسی تنازعات کے باعث یہودیوں کو سلطنتِ فارس کے تحت شدید مشکلات و مصائب کا سامنا رہا۔ ماضی کی سلطنتِ فارس میں بابل بھی شامل تھا جسے آج کل ہم عراق کے نام سے جانتے ہیں۔ بابل یہودی دنیا کا سب سے بڑا قلعہ تھا جہاں یہودیوں کی دانشورانہ زندگی کے بہت سے مراکز موجود تھے۔ بازنطینی و رومی سلطنت کے مابین کشاکش کا نتیجہ بازنطینیوں کے ماتحت یہودیوں کی علیحدگی و انتشار کی صورت میں برآمد ہوا اور پھر یہودی فارسی و مسیحی حکومت کے ماتحت آگئے۔

ماہرِ تاریخ و علومِ یہودیت پروفیسر واسیرسٹین کا کہنا ہے کہ مسیحی حکمرانی کے تحت یہودیوں کا جینا حرام ہوگیا، وہ اپنی قدیم عبرانی و آرامک زبان کے علم سے محروم ہونے لگے اور یونانی و لاطینی جیسی مقامی زبانوں کو لاچاری و پژمردگی کے ساتھ اپنانے لگے اور غالب امکان یہ تھا کہ یہودی توریت جیسے مذہبی علم اور ادبی کاموں سے بھی اپنا تعلق کھو بیٹھیں گے۔ زبان و ادب چونکہ انسانی ثقافت کو یکجہتی عطا کرتا ہے، اس لیے مذہبی و ادبی علوم کا ہاتھ سے جانا یہودی قوم کیلئے بڑا المیہ اور مسیحی دنیا میں ضم ہونے کا بڑا سبب تھا کیونکہ فارس کے ساتھ تنازعات کے دوران ہی بابل (موجودہ عراق) کی علیحدگی عمل میں آئی تھی۔

علم کی دولت سے مالا مال پروفیسر واسیرسٹین کہتے ہیں کہ یہودیت جو ناپید ہونےسے بچ گئی، اس میں اسلام کے عروج کا بڑا کردار ہے کیونکہ اگر اسلام غالب نہ آتا تو مغرب کے یہودی مذہب پر موت کو ترجیح دینے سے انکار کرکے مسیحیت میں گھل مل جاتے اور مشرق کے یہودی کوئی اور ہی مذہبی گروہ بن کر رہ جاتے جبکہ ساتویں صدی کی اسلامی فتوحات نے دنیا ہی تبدیل کر ڈالی اور یہودیوں کیلئے وسیع البنیاد، مثبت اورمستقل نوعیت کے ڈرامائی اثرات مرتب کیے۔

آگے چل کر پروفیسر واسیرسٹین نے مزید کہا کہ اسلامی سلطنت سن 632 عیسوی تک اسپین سے لے کر شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اس کے باہر تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہودیوں کیلئے یہ صورتحال ایک گیم چینجر ثابت ہوئی کیونکہ وہ اب ایک ہی اصول یعنی مسلمانوں کی حکمرانی کے تحت آگئے تھے جس سے ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر بے حد مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ مسلمانوں نے یہودیوں سمیت دیگر اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت دی اور یہودیوں کے نزدیک مسیحی حکمرانی کے تحت شہری نہ ہونے سے دوسرے درجے کا شہری ہونا بدرجہا بہتر تھا۔

پروفیسر واسیرسٹین کے بیان کے مطابق دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے بنیادی انسانی حقوق سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ یہودی قوم نے معاشرتی و معاشی مساوات بھی حاصل کی۔ اسلامی سلطنت نے یہودیوں کو کسی دائرے میں محدود نہیں کیا بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی، کیونکہ اسلامی معاشرہ ایک وسیع الذہن معاشرہ تھا۔یہودی برادری نے اپنے اپنے رہنماؤں کو اہم عہدوں پرفائز کروا کر ریاستی حکام کے سامنے باضابطہ نمائندگی حاصل کی۔

عربی زبان کو اپنانے کے نتیجے میں یہودیوں کو وسیع ثقافتی پیشرفت بھی عطا ہوئی۔ پروفیسر واسیرسٹین کہتے ہیں کہ عالمِ اسلام کے تحت یہودیوں کی ثقافت ایک نیا رخ اختیار کرچکی تھی جو اپنی زبان، ثقافتی اقدار، اثرات اور طریقۂ کار کے لحاظ سے اسلام سے قبل کی ثقافت سےمختلف ،کہیں بہتر اور طاقتور ثابت ہوئی۔مذہب کی حد بندیوں میں جکڑے رہنے کی بجائے یہودی ثقافت نے اسلامی دنیا کے تحت اپنے دیگر پڑوسیوں کی طرح مذہبی اور سیکولر درجہ اختیار کیا۔ یہودیوں نے اسلامی سلطنت کے تحت عبرانی زبان کا احیاء کیا جس کے نتیجے میں بائبل کے بعد لکھی جانے والی عبرانی میں سب سے زیادہ شاعری کی گئی۔ اسلامی دور کے اسپین میں یہودیوں نے ثقافتی خوشحالی کا وہ سنہرا دور دیکھا جس کی ماضی میں کوئی مثال دستیاب نہیں۔

نئے دور کے متعلق پروفیسر واسیرسٹین کا کہنا ہے کہ یہودی ثقافتی خوشحالی اور مسلم عرب ثقافتی خوشحالی کے مابین براہِ راست باہمی تعلق موجود تھا۔ جب مسلم عربی ثقافت پروان چڑھی تو یہودیوں کا کلچر بھی آگے بڑھا اور جب مسلم عرب ثقافت کا خاتمہ ہوگیا تو یہودی ثقافت بھی اپنی مضبوط ومستحکم حیثیت کھو بیٹھی، تاہم یہودیوں کیلئے مختلف بات یہ ہوئی کہ جو ثقافتی دارالخلافہ انہوں نے مسلم حکمرانی کے تحت قائم کیا تھا، وہ مسیحی اسپین اور عام مسیحی حکومت کے تحت بھی مزید ترقی کیلئے نرسری کا کام دینے لگا۔

پروفیسر واسیرسٹین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عیسائی یورپ میں بعد میں آنے والے ثقافتی کلچر کے احیاء کیلئے اسلام کوئی واحد مآخذ نہیں تھا تاہم اسلام نے یہودی ثقافت کی تعمیر و ترقی میں ایک نمایاں کردار ضرور ادا کیا ہے ، اس کے باوجود کوئی شخص یہودی ثقافت کے احیاء میں اسلام کے کردار پر مبالغہ آمیز بیان بازی بھی نہیں کرسکتا۔

آخر میں یہ کہنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہودی مذہب و ثقافت کو زندہ کرنے میں مسلم و عرب حکمرانی کے مثبت کردار کے پیش نظر ہمیں پختہ یقین ہے کہ جدید ریاستِ اسرائیل کو صیہونیت کے ماتحت مسلمان فلسطینیوں اور عربوں کے ساتھ انسانی ہمدردی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے فوری طور پر ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کرنا چاہئے۔

Related Posts