رواں برس مون سون کا سیزن پاکستان میں شدید بارشوں کا باعث بنا جس کے باعث ملک بھر میں امدادی کارکنان کی دوڑیں لگ گئیں جو سیلابی پانی میں پھنسے ہزاروں متاثرین کو نکالنے کیلئے سینہ سپر ہیں۔
ملک بھر میں بارشیں قومی 30 سالہ اوسط سے 2.87 گنا زیادہ ہیں، کچھ صوبوں میں ان کی 30 سالہ اوسط سے پانچ گنا زیادہ بارش ہوئی ہے۔ حکومت نے ابتدائی طور پر سیلاب کو نظر انداز کر رکھا تھا، تاہم یہ ملک کی معیشت کیلئے تیسرا سنگین چیلنج بن گیا ہے۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پاکستان میں سیلاب متاثرین کی صورت حال مزید ابتر ہو گئی ہے کیونکہ شدید بارشوں کے باعث سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں ملک بھر میں بے گھر ہونے سمیت دیگر بڑے نقصانات سامنے آئے ہیں۔ ابتدائی جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ سیلاب نے 2010 کے سیلاب سے کہیں زیادہ نقصان کیا۔
مون سون کی غیر معمولی بارشوں اور تباہ کن سیلاب نے پاکستان کی معیشت کو نقد رقوم کی کی کمی کا شکار کردیا جس سے پاکستان میں زرعی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔ پاکستان میں سیلاب کوئی معمولی بات نہیں لیکن یہاں کے عوام کا کہنا ہے کہ رواں برس سیلاب کی صورتحال پہلے سے بے حد مختلف ہے۔
اگرچہ بارش اور سیلاب کے اصل اثرات کا اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا، پاکستان، جہاں زراعت کا مجموعی گھریلو پیداوار میں 23 فیصد حصہ ہے، سیلاب کے بعد انتہائی عدم تحفظ کا شکار ہوسکتا ہے۔
جون 2022 کے وسط سے ہونے والی مون سون بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب نے پاکستان کے بلوچستان، سندھ، گلگت بلتستان، پنجاب، آزاد جموں و کشمیر اور خیبرپختونخوا صوبوں کو متاثر کیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بڑے پیمانے پر سیلاب سے اب تک 1100 سے زائد افراد ہلاک اور 1 ہزار 500 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
متاثرہ افراد کی تعداد کا تخمینہ ساڑھے 3 کروڑ کے لگ بھگ ہے، اور تقریباً 10 لاکھ مکانات مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں اور لاکھوں افراد کو فوری چھت کی ضرورت ہے۔ 809,000 ہیکٹر (20لاکھ ایکڑ) سے زیادہ کاشت کی گئی فصلیں تباہ ہوگئیں۔ 3,451 کلومیٹر (2,150 میل) سڑکیں تباہ ہو گئیں، اور 149 پل بہہ گئے ہیں۔
اس کے علاوہ، تقریباً 8 لاکھ مویشی ہلاک ہو گئے۔ ہزاروں کلومیٹر سڑکیں اور پل تباہ ہو گئے۔ یوں سیلاب ملک بھر میں زلزلے جیسی تباہی پھیلا رہا ہے۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب نے پہلے ہی سے کمزور اور بنیادی حقوق سے محروم عوام کو متاثر کیا، جبکہ بہت سے لوگ ابھی تک کورونا کے اثرات سے ٹھیک نہیں ہوئے۔
حالیہ سیلابوں کے بعد اب عوام اس سے بھی بدتر حالت میں ہیں۔ وبائی امراض کے پیچیدہ اثرات انسانی حقوق اور فلاح و بہبود کی تنظیموں کیلئے فوری طور پر متاثرہ افراد کی ضروریات کو پورا کرنا اور ان کا جواب دینا مشکل بنا رہے ہیں۔
پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے اشیاء کی سپلائی میں رکاوٹ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا ہے جس کے نتیجے میں حساس قیمتوں کا اشاریہ 44.58 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے جو ملک میں آسمان چھوتی مہنگائی کی نشاندہی کرتا ہے۔
حساس قیمت انڈیکس نے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور یہ فی الحال تاریخ کی بلند ترین سطح پر کھڑا ہے۔ کل 51 اشیائے ضروریہ میں سے گزشتہ ہفتے 23 کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جبکہ صرف 7 کی قیمتوں میں کمی اور 21 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
مون سون کی غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے آنے والے حالیہ سیلاب نے اہم اور معمولی فصلوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، جو زرعی کارکردگی کے ذریعے معاشی نقطہ نظر کو متاثر کر سکتی ہیں۔ سیلاب نے خریف کی اہم اور چھوٹی فصلوں کی ممکنہ پیداوار کو کم کر دیا ہے، جس سے زرعی شعبے کے مثبت نقطہ نظر کو نقصان پہنچا ہے۔
طوفانی سیلاب کے اثرات میں زیادہ درآمدات، برآمدات پر سمجھوتہ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی شامل ہو سکتی ہے اور یہ صورت حال حکومت کو 2.6 ارب امریکی ڈالر مالیت کی کپاس، 90 کروڑ امریکی ڈالر کی گندم کی اضافی درآمدات کرنے پر مجبور کر سکتی ہے اور ملک تقریباً 1 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل برآمدات سے محروم ہو سکتا ہے۔
یہ موجودہ مالی سال 23-2022 میں تقریباً 4.5 ارب امریکی ڈالر (جی ڈی پی کا 1.08 فیصد) ہے۔ سیلاب کی وجہ سے صارفین کو پیاز، ٹماٹر اور مرچ جیسی گھریلو اشیا کی سپلائی میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سب سے زیادہ سیلاب سے متاثر ہونے والی فصل کپاس ہے۔ کسانوں نے گزشتہ مالی سال میں 80 لاکھ گانٹھوں کی پیداوار لی، لیکن اب سندھ میں شدید بارشوں کے باعث گزشتہ سالوں کی طرح ان کی فصل دوبارہ خراب ہوگی۔ کپاس کی بوائی مبینہ طور پر (سندھ میں) کافی حد تک تباہ ہو چکی ہے۔
اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ملک کو اس سال طلب کا 80 فیصد پورا کرنے کے لیے کپاس کی درآمد کی ضرورت ہے، مالی سال 23 میں امپورٹ بل 4.4 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔
دوسری طرف درآمد شدہ خام کپاس یا دیگر غیر پراسیس شدہ ٹیکسٹائل کی عدم دستیابی سے ملک کی ٹیکسٹائل برآمدات پر منفی اثر پڑے گا۔ چاول ایک اور فصل ہے جس کے جاری سیلاب میں بڑے پیمانے پر نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ ان چند فصلوں میں شامل ہے جہاں ماضی قریب میں زیر کاشت رقبہ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
چاول سالانہ برآمدات میں 2.5 ارب ڈالر کا حصہ ڈالتا ہے۔ اس کی فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کے نتیجے میں جی ڈی پی کی نمو میں معمولی کمی اور اعلیٰ سی پی آئی افراط زر کے علاوہ برآمدات کو نقصان پہنچے گا۔ چونکہ سیلاب کا پانی غائب ہونے میں دو سے تین ماہ کا وقت لگتا ہے، اس کے نتیجے میں گندم اور خوردنی تیل کے بیجوں کی بوائی میں تاخیر کا امکان ہے۔
گندم کی کاشت میں تاخیر ملک کیلئے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ بہت سے کسان پہلے ہی گندم سے خوردنی تیل کے بیجوں کی کاشت کی طرف جا چکے ہیں۔ مزید یہ کہ سیلاب کے بعد کی صورتحال سے گندم کی آنے والی فصلوں کی پیداوار پر بھی منفی اثر پڑنے کا خدشہ ہے۔
بوائی میں تاخیر اور گندم کی درآمدی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ، 3 کروڑ ٹن گندم کی طلب کا 15 فیصد درآمد ہونے سے مالی سال 2023 میں اس کا درآمدی بل 1.7 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
ورلڈ بینک سیلاب سے متعلق سرگرمیوں کے لیے اپنے موجودہ 37 کروڑ ڈالر کو دوبارہ استعمال کر سکتا ہے اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے توقع ہے کہ وہ اپنے 2 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے فنڈز کو دوبارہ ترجیح دے گا، جس میں 80 لاکھ ڈالر کی گرانٹ بھی شامل ہے جو پہلے کورونا مقاصد کے لیے کی گئی تھی۔
تاہم دو طرفہ عطیہ دہندگان نے چھوٹی گرانٹس کی فراہمی کا اشارہ دیا، جو شاید کافی نہ ہو۔ وزیراعظم شہباز شریف کی اپیل پر عالمی اور مالیاتی اداروں نے سیلاب متاثرین کیلئے 50 کروڑ ڈالر سے زائد کی فوری امداد کا اعلان کیا۔
فی الحقیقت ملک ایک بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے اور گہرا ہوتا ہوا سیاسی بحران حکومت کی آگے بڑھتے ہوئے سخت فیصلے کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے لیے ذمہ دار معیشت کے دیرینہ ساختی مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔
جنگلات اور قدرتی وسائل کی حفاظت سے سیلاب کے خطرات کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔ شجرکاری سے دراصل انسان کے بنائے ہوئے جنگلات تخلیق کیے جاسکتے ہیں۔ کچھ درخت جیسے یوکلپٹس اور مینگرووز بہت مددگار ہوتے ہیں جو قدرتی طور پر ہمیں سیلاب، سمندری لہروں اور سونامی سے بچاتے ہیں۔
شجرکاری کے ذریعے ایسے درختوں کو دریاؤں، نہروں اور ڈیموں کے قریب لگایا جاسکتا ہے۔ دراصل یوکلپٹس کی بہت سی خصوصیات ہیں۔ یہ تیزی سے بڑھنے والا درخت ہے اور ایک قسم کی قدرتی کیڑے مار دوا ہے۔ اسے پیاسا درخت بھی کہا جاتا ہے جس کی جڑیں زیر زمین گہرائی میں پھیل جاتی ہیں اور تمام پانی کو خشک کر دیتی ہیں۔
ہم اس قسم کے درخت کو دلدل کو ختم کرنے کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں جبکہ مینگروز کا جنگل بھی بالکل یہی کام کرتا ہے۔ ایسے درخت لگا کر ہم سیلاب پر کچھ نہ کچھ حد تک قابو پا سکتے ہیں۔ ڈیم بھی سیلاب روکنے میں مددگار ہیں، ان میں ضرورت سے زیادہ پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے جس کیلئے ہمیں مزید ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے بہت سے طریقے ہیں جن میں نئے قوانین تیار کرنا اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے موجودہ قوانین پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ سیلاب کی پیشگی وارننگ کے نظام کو مضبوط کرنا اور سیلابی علاقوں میں ترقی کو محدود کرنا شامل ہے۔ زرعی اراضی کے تحفظ کے لیے حکومت کو ڈیم تعمیر کرنے ہوں گے۔
بشکریہ:
رضوان اللہ
سکول آف مینجمنٹ اینڈ اکنامکس
بیجنگ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، چین۔
ای میل: rezwanullah1990@yahoo.com