بشار الاسد کی گیم کیسے خراب ہوئی؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بشار الاسد اپنی حکومت کو سفارتی سطح پر دوبارہ مستحکم کرنے کے بعد حتمی فتح کا اعلان کرنے کی تیاری کر رہا تھا کہ شیر افضل مروت کی زبان میں اس کا سارا پروگرام وڑ گیا۔

اِدلب اور حلب کے مغربی دیہی علاقوں سے شروع ہونے والے ایک منظم حملے نے سب کچھ تہہ وبالا کر دیا۔ اس حملے کے نتیجے میں ادلب اور حلب کے کئی شہروں اور دیہات پر اپوزیشن کا قبضہ ہو گیا اور لڑائی حماہ تک پہنچ گئی، اس کے آگے حمص ہے اور پھر دارالحکومت دمشق۔ اپوزیشن اتحاد کے جنگجوئوں کے آگے حکومتی افواج اچانک زمین بوس ہو گئیں۔ اس دوران اسد کے علاقائی اور بین الاقوامی اتحادی تقریباً غیر فعال نظر آئے، کیونکہ وہ اب تک موجودہ صورتحال پر اپنے ردعمل کا تعین کرنے میں مصروف ہیں۔
تنہائی کا خاتمہ:
گزشتہ دو برسوں کے دوران کئی ممالک نے بشار الاسد حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کیے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شام کی 11 سالہ معطلی کے بعد عرب لیگ میں واپسی ہوئی۔ بشار الاسد نے ایک بار پھر عرب سربراہی اجلاسوں میں شرکت کی۔ عرب دنیا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے ساتھ ساتھ انقرہ نے بھی دمشق کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی، لیکن اسد نے پہلے کچھ شرائط رکھیں، جن میں ترک افواج کو شامی سرحدی علاقوں سے واپس بلانے کا مطالبہ شامل تھا۔ امسال بشار الاسد نے ماسکو اور تہران کا دورہ کیا۔ اس دوران ایسا محسوس ہوا کہ شامی حکومت کے خلاف یورپی مقاطعے (بائیکاٹ) کی دیوار ٹوٹنے کے قریب ہے، خاص طور پر عرب لیگ میں اسد کی واپسی کے بعد۔ اٹلی، آسٹریا، قبرص، چیک جمہوریہ، یونان، کروشیا، سلووینیا اور سلوواکیہ نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے نمائندے جوزف بوریل کے نام ایک خط پر دستخط کیے، جس میں شامی حکومت کے ساتھ تعلقات پر دوبارہ غور کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ان ممالک نے یہ تجاویز بھی دیں:
1. شام میں یورپی یونین کے لیے ایک خصوصی مندوب مقرر کیا جائے۔
2. برسلز میں شام کے سفیر کے ساتھ دوبارہ رابطہ قائم کیا جائے۔
3. یورپی پابندیوں کے شامی حکومت پر اثرات پر غور کیا جائے۔
اٹلی نے دمشق میں اپنا سفیر مقرر کرنے کا اعلان کیا اور یوں وہ ساتواں یورپی ملک بن گیا جس کی شام میں سفارت خانہ فعال ہے۔ اسی دوران اقوام متحدہ میں امریکی مندوب لنڈا تھامس گرینفیلڈ، نے شامی حکومت کو ایک ممکنہ مراعاتی پیشکش کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر شام میں تنازع کے حل کی جانب پیش رفت ہوتی ہے تو واشنگٹن شام پر عائد پابندیاں ہٹانے پر غور کرنے کے لیے تیار ہے۔

یہ تو ہوا بین الاقوامی پیشرفت۔ ملکی سطح پر 2024 کے دوران بشار کی بعث پارٹی نے اپنی مرکزی اور صوبائی قیادت کے انتخابات کروائے۔ جن کے نتیجے میں بشار کو متفقہ طور پر دوبارہ پارٹی کا سیکریٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ (مجلس الشعب) کے انتخابات منعقد ہوئے، جن میں بعث پارٹی کو فتح حاصل ہوئی۔ اس کامیابی کے بعد بشار نے محمد غازی الجلالی کو نئی حکومت تشکیل دینے کا اختیار دیا۔
اس دوران گورنرز (محافظین) کی تقرریوں میں بھی تبدیلیاں کی گئیں اور وزارت دفاع نے بھرتی کے نظام میں تبدیلیوں کا اعلان کیا۔ نئی پالیسی کے تحت ریزرو فوجی سروس کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال کر دی گئی اور ایسے تمام افراد کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جنہوں نے ریزرو میں پانچ سال گزار لیے ہیں۔ یہ اقدام رواں سال کے آخر تک ہزاروں افراد کو فوج سے فارغ کرنے کی راہ ہموار کرے گا، تاکہ فوج کو رضاکاروں پر زیادہ انحصار کے قابل بنایا جا سکے۔
یہ ساری پیش رفت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بشار الاسد نے عرب دنیا میں تنہائی کے خاتمے میں کامیابی حاصل کی ہے اور وہ ایک بار پھر اپنے علاقائی دائرے میں تسلیم شدہ حکمران بن گیا ہے۔ اس صورتحال نے کئی یورپی ممالک کو بھی اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ داخلی سطح پر پارٹی، سیاسی اور سیکورٹی معاملات کی انجینئرنگ کی، جو دراصل 14 سالہ خانہ جنگی کے بعد شامی حکومت کی مخالف انقلابی قوتوں پر اپنی فتح کے اعلان کے لیے زمین ہموار کرنے کا ایک ذریعہ تھی۔ اس دوران بشار اور اس کے اتحادیوں نے شامی عوام کے خون کو بے دریغ بہایا، جس کا کوئی مؤثر جواب نہیں دیا گیا۔
آپریشن “رد العدوان” سے قبل:
سال 2024 کے دوران شامی اپوزیشن کے دھڑوں کے مستقبل کے بارے میں بحث تیز ہو گئی، خاص طور پر ترک-شامی تعلقات کی بحالی کے امکانات کے تناظر میں۔ یہ سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ اگر ترک فوج اپنے فوجی مراکز سے آزاد شدہ علاقوں سے واپس چلی گئی تو کیا یہ دھڑے تنہا حکومتی افواج کے خلاف مزاحمت کر سکیں گے یا نہیں؟ اس دوران حکومتی افواج نے روزانہ بنیادوں پر خود کش ڈرونز کے ذریعے آزاد شدہ علاقوں کے دیہات پر حملے تیز کر دیے۔ یہ حملے نہ صرف ہدف پر موجود اپوزیشن جنگجوؤں اور ان کے فوجی سازو سامان کو نقصان پہنچا رہے تھے بلکہ عام شہریوں اور ان کی املاک کو بھی متاثر کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی توپ خانے اور میزائلوں سے کیے جانے والے حملے بھی جاری تھے، جو مزید تباہی کا باعث بن رہے تھے۔
دوسری طرف ستمبر 2024 میں لبنان میں جنگ کے شعلے بھڑکنے کے بعد حزب اللہ کی توجہ شام سے ہٹ گئی اور اس کے علاوہ روس پہلے ہی یوکرین کی طویل جنگ میں مصروف ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر “ہیئة تحرير الشام” نے اپنی جنگی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے فوجی تربیتی کورسز اور مہماتی مشقیں تیز کر دیں، تاکہ اپنے جنگجوؤں کی جنگی تیاریوں میں اضافہ کیا جا سکے۔ ان اقدامات کا مقصد مناسب مواقع سے فائدہ اٹھا کر آزاد شدہ علاقوں کا دائرہ وسیع کرنا تھا۔
“غرفة عمليات الفتح المبين” (اپوزیشن کی عسکری کارروائیوں کا ذمہ دار ادارہ) نے اس دوران اپنے آپریشنز کی شدت میں اضافہ کیا اور نشانہ بنائے گئے آپریشنز کی تعداد بڑھا دی۔ ایک نمایاں آپریشن میں “كبّاشين” محاذ پر اسد افواج کے مورچوں پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں دو فوجی قیدی بنائے گئے۔ اسی طرح جبل التركمان شمالی لاذقیہ میں ایک اور کامیاب آپریشن کیا گیا، جس میں 28 فوجی افسران اور سپاہی ہلاک یا زخمی ہوئے۔ ایک تیسرا آپریشن عين عيسىٰ محاذ پر شمالی لاذقیہ میں کیا گیا، جس کے نتیجے میں 15 اسدی افواج کے اہلکار ہلاک یا زخمی ہوئے۔ اسی دوران حکومتِ انقاذ (اپوزیشن کی شیڈو گورنمٹ) کی سیاسی امور کی انتظامیہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں اسد حکومت کو شہریوں اور پناہ گزینوں کے خلاف حملوں اور نقل مکانی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور اس بیان کے ذریعے اسد حکومت پر ممکنہ طور پر نئے فوجی آپریشن کی وجہ سے ہونے والی کشیدگی کا الزام عائد کیا گیا۔
تاہم اس کے باوجود ان شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا کہ آیا شامی اپوزیشن گروہ اسد کے فضائی کنٹرول، بشمول شامی اور روسی طیاروں کو کامیابی کے ساتھ عبور کر کے کسی بڑے حملے کا آغاز کر سکیں گے۔ مزید برآں اس بات پر بھی سوالات اٹھائے گئے کہ اپوزیشن کے کسی بھی فوجی آپریشن کے نتائج خاص طور پر شہریوں پر اس کے اثرات، کتنے سنگین ہوں گے۔
اچانک افتاد:
27 نومبر 2024 کی صبح ادلب میں اپوزیشن گروپوں نے “ادارۃ العمليات العسكرية” کے تحت “ردع العدوان” کے عنوان سے ایک فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ اس آپریشن کا پہلا ہدف شامی فوج کا “46 واں فوجی دستہ” تھا جو حلب کے مغرب میں واقع تھا۔ لیکن ابتداءً یہ حملہ ناکام ہوگیا۔ آپریشن کے دوران یہ کارروائی دو محاذوں پر پھیل گئی، پہلا محاذ حلب شہر کی طرف اور دوسرا محاذ سراقب شہر کی طرف، جو ادلب صوبے میں دمشق اور حلب کے درمیان بین الاقوامی شاہراہ پر واقع ہے۔ آپریشن کے تیسرے دن ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا، جب اپوزیشن نے حلب شہر کو بغیر کسی شدید لڑائی کے قبضے میں لے لیا اور سراقب شہر پر بھی مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ شامی فوج نے بغیر کسی منظم انخلا کے بے ترتیبی سے حماہ کی طرف فرار ہونا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں اپوزیشن نے شامی فوج کے بڑے اسلحہ ذخیرے پر قبضہ کر لیا، جس میں ٹینک شکن میزائل، ایئر کرافٹ میزائل، راکٹ پروجیکٹائلز، 100 سے زائد ٹینک، اور راکٹ لانچر جیسے جدید ہتھیار شامل تھے۔

(جاری ہے)

Related Posts