حالیہ سیلابی صورتحال 2010 کے سیلاب سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہورہی ہے۔ ملک کا 70 فیصد حصہ ڈوب چکا ہے۔
این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق سیلاب اور بارشوں کے باعث جاں بحق افراد کی مجموعی تعداد 1061 ہوگئی ہے۔
رپورٹس کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران43 ہزار13 گھروں کو نقصان پہنچا، ملک بھر میں اب تک 9 لاکھ 92 ہزار871 گھروں کو نقصان پہنچا۔ ان گھروں میں رہنے والے لوگ یا تو وقتی طور پر لگائے گئے خیموں میں رہ رہے ہیں یا کھلے آسمان تلے گزارا کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آپ سیلاب زدگان کی مدد کس طرح کرسکتے ہیں؟
صاف پانی اور خوراک کی فراہمی
سب سے پہلے تو اس بات پر غور کیا جائے کہ اس وقت سیلاب متاثرین افراد کو کن اشیاء کی ضرورت ہے۔ پینے کا صاف پانی اور زندہ رہنے کے لئے خوراک متاثرین کی اولین ترجیح ہے۔
صاف پانی کی فراہمی تو سمجھ آتی ہے مگر خوراک کے طور پر کیا بھجوایا جا سکتا ہے؟ سیلاب متاثرین جگہوں پر کھانا پکانے کی سہولت موجود نہیں ہے اس لیے بہتر ہے کہ ایسی خوراک بھجوائی جائے جو تیار شدہ اور پکی پکائی ہو۔ جیسے خشک میوہ جات، بھنے ہوئے کالے چنے، گڑ ، بادام اور کھجور وغیرہ۔
کیا خود کھانا پکا کر بھجوایا جا سکتا ہے؟
مختلف این جی اوز کے مطابق ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں جن میں لوگ دیگیں پکا کر سیلاب متاثرین کے لیے لے کر جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ پکے پکائے کھانے کا سیلاب متاثرین کو زیادہ فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ کھانا ان تک پہنچانا بھی مشکل ہے اور اگر پہنچ بھی جائے تو اس کو زیادہ دیر کے لیے رکھا نہیں جا سکتا، یہ خراب ہو جاتا ہے۔ اسی لیے بہتر ہوگا کہ خود کھانا بنا کر نہ بھجوایا جائے۔
خوراک کے علاوہ کیا سامان بھجوایا جا سکتا ہے؟
زندہ رہنے کے لیے صرف خوراک کی ہی نہیں بلکہ شیلٹر کی بھی ضرورت ہے۔ بے گھر متاثرین کی ایک بڑی ضرورت خیمے بھی ہیں، اس کے علاوہ سلے ہوئے کپڑے، اوپر اوڑھنے کے لئے چادریں، متاثرہ خواتین کے لیے سینیٹری پیڈز یا کپڑے کے نیپکین، بچوں کے لئے خشک دودھ وغیری بھی بھجوا سکتے ہیں۔
کیا ادویات بھجوائی جا سکتی ہیں؟
موجودہ حالات میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہے اس لیے بنیادی ادویات کے ساتھ ساتھ ہیضے، پیچش، بخار وغیرہ کی ادویات بھی ان کو بھجوائی جاسکتی ہیں۔
کیا خود امدادی سامان لے کر متاثرہ علاقوں میں جانا چاہیے؟
عام طور پر لوگ حکومتی یا غیر سرکاری تنظیموں کو نقد امداد دینے کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ امداد خود فراہم کی جائے، ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کسی ایسے شخص کے لیے جو آفات کے علاقے میں کام کرنے کا تجربہ نہیں رکھتا اس علاقے میں خود جانا نہ صرف اپنے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے بلکہ وہ ریسکیو کے کام میں رکاوٹ بھی بن سکتا ہے۔ تو بہتر ہے کہ خود نہ جایا جائے لیکن اگر پھر بھی ضروری سمجھے تو کسی این جی او یا تجربے کار بندے کے ساتھ جائے۔
یہ سامان کیسے بھجوایا جائے؟
ماہرین کے مطابق یہ بہتر ہے کہ آپ خود سامان خریدنے کے بجائے حکومتی یا غیر سرکاری این جیوز کو نقد عطیات دے دیں تا کہ وہ تھوک میں سستے داموں زیادہ سامان خرید سکیں۔ بھروسے مند تنظیم کو عطیات دینے کے بعد آپ خود مانیٹرنگ کر سکتے ہیں کہ آپ کا پیسہ صحیح جگہ پہنچا یا نہیں۔