کورونا وائرس سے بدترین متاثرہ امریکا وباء کے مہلک اثرات کا سدباب کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن مہم شروع کررہا ہے۔
امریکا میں یومیہ لاکھوں نئے کیسز رپورٹ ہونے کے علاوہ روزانہ ہزاروں اموات ہورہی ہیں اور امریکا کو امید ہے کہ ویکسین کی فراہمی کے بعد زندگیاں اور حالات معمول پر آجائینگے۔
پہلی ویکسین منظور ہونے کے چند دن بعد ہی امریکا بڑے پیمانے پر ویکسین کی خریداری کا انتظام کر رہا ہے لیکن زیادہ تر امریکیوں کو ویکسین لینے میں کئی دن لگیں گے۔
اب بھی مارچ تک صرف 10 کروڑافراد کو حفاظتی ٹیکے لگائے جائیں گے اور اس وباء پر قابو پانے کے لئے حفاظتی تدابیر کی ضرورت ہوگی۔
امریکا 16 ملین کیسز کی حد کو عبور کرچکا ہے اور تیزی سے سنگین 3 لاکھ ہلاکتوں کی تعداد کو پہنچ رہا ہے جو موسم گرما میں 5ملین بھی ہوسکتی ہیں۔
برطانیہ پہلے ہی بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن مہم شروع کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے جبکہ دیگر یورپی ممالک سے بھی جلد اس کی پیروی کرنے کی امید ہے لیکن ویکسین کی فراہمی کے حوالے سے ایک سوال پیدا ہوگیا ہے کہ ترقی پذیر دنیا کا کیا ہوگا؟
امیر ممالک کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے ویکسین جمع کروا رہے ہیں اورترقی یافتہ ممالک بڑی دوا ساز کمپنیوں سے یہ ویکسین خریدنے میں پہلے نمبر پر رہے ہیں جبکہ پسماندہ ممالک ابھی بھی ویکسین کی فراہمی کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
اس حوالے سے پیپلز ویکسین الائنس نے خبردار کیا ہے کہ تقریباً 70 کم آمدنی والے ممالک صرف دس افراد میں سے ایک کو ویکسین لگاسکیں گے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو ویکسین کی پہلی کھیپ حاصل کرنے کیلئے مہینوں انتظار کرنا پڑے گا اور چینی اور روسی ویکسین جیسے متبادل تلاش کرنے پڑے گے۔
عالمی سطح پر ویکسین موومنٹ کووایکس کم آمدنی والے افراد کے لئے 700 ملین خوراکیں محفوظ کرنے میں کامیاب رہی لیکن ویکسین کی فراہمی کیلئے مالی امداد میں کمی کا سامنا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل، آکسفیم جیسی عالمی تنظیموں پر مشتمل اتحاد کا دعویٰ ہے کہ امیر ممالک نے اپنی آبادی کو متعدد بار ٹیکے لگانے کے لئے کافی ویکسین خرید لی ہے۔
امیر ممالک دنیا کی آبادی کی صرف 14 فیصد نمائندگی کرتے ہیں لیکن پہلے ہی 53 فیصد ویکسین خرید چکے ہیں۔ کینیڈا نے ہر شہری کو پانچ بار قطرے پلانے کا حکم دیا ہے۔
دنیا ایک وائرس سے بچاؤ کیلئے وسائل کی مساوی تقسیم کی متقاضی ہے جس نے ہم سب کو متاثر کیا ہے۔ کسی کو بھی ترقی پذیر ملک سے تعلق رکھنے یا مناسب رقم نہ ہونے کی ویکسین لینے سے نہیں روکا جانا چاہئے۔
ہوسکتا ہے کہ دنیا کے اربوں افراد سالوں سے محفوظ اور موثر ویکسین حاصل نہ کرسکیں جب تک کہ کوئی چیز تیزی سے تبدیل نہ ہو۔
یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم ٹیکنالوجی، وسائل کا اشتراک کریں اور مساوی رسائی حاصل کریں تاکہ ہم وباء کوشکست دے سکیں۔