دوسری جنگِ عظیم کا پائلٹ،پاک فضائیہ کا ہیرو

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بہت سے پاکستانیوں کیلئے یہ بات حیران کن ہوسکتی ہے کہ پاکستان ائیرفورس اور خلائی پروگرام کے چیف آرکیٹکٹ آفیسر دوسری جنگِ عظیم کے پائلٹ تھے۔

ولیڈسلاجوزف ماریان ٹورووچ پولینڈ کے پناہ گزین پائلٹ تھے جو برطانوی رائل ائیر فورس (آر اے ایف) میں شامل ہو کر دوسری جنگِ عظیم کے دوران لڑے۔ جنگ کے بعد آر اے ایف کو پولینڈ کے پائلٹس کی خدمات کی ضرورت نہیں رہی اور ان کے وطن نے بھی ان کے استقبال سے انکار کردیا جو اب کمیونسٹ بن کر سوویت یونین (روس) کے زیرِ اثر آگئے۔

رائل ائیر فورس کا حصہ بننے سے قبل ولیدسلاجوزف ماریان ٹورووچ پولینڈ کی فضائیہ میں ایک کمیشنڈ ایروناٹیکل انجینئر اور فائٹر پائلٹ رہے۔ انہوں نے وارسا یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی ایوی ایشن فیکلٹی میں ایروناٹیکل انجینئرنگ میں اعزاز کے ساتھ گریجویشن مکمل کی تھی۔

آگے چل کر 1948ء میں لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن نے تربیت یافتہ تکنیکی ماہرین اور پائلٹس کیلئے برطانوی اہلکاروں کی آسامیاں خالی ہونے کا اعلان کیا جو پاکستان کی آزادی کے بعد اپنے وطن واپس جا رہے تھے، اس موقعے پر ٹورووچ نے 29 دیگر پولش پائلٹس کے ہمراہ رائل پاکستان ائیرفورس میں شمولیت کا 3 سالہ معاہدہ کر لیا جیسا کہ اس وقت رائج تھا۔ انہوں نے ڈرگ روڈ پر ٹیکنیکل ٹریننگ سیکشن میں کام شروع کیا جبکہ ان کی اہلیہ صوفیہ شاہین ائیر کیڈٹس میں سویلین گلائیڈرز کی انسٹرکٹر تھیں۔

جب تین سالہ معاہدے کی میعاد ختم ہوئی تو بہت سے پولش اہلکار پاکستان سے چلے گئے لیکن ٹورووچ نے پاکستان میں رہائش کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ اور ان کا خاندان پاکستانی زندگی سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ مزید برآں ونگ کمانڈر کے عہدے پر فائز ٹورووچ 1952 میں پاک فضائیہ چکلالہ کے اسٹیشن کمانڈر اور 1955 سے لے کر 1957 تک پی اے ایف کوہاٹ کے اسٹیشن کمانڈر بنے۔ ائیر اسٹاف کا حصہ رہنے والے ٹورووچ 1961 میں پاکستانی شہری بن گئے۔

پاک فضائیہ کیلئے خدمات سرانجام دینے کے دوران ٹورووچ نے کراچی میں ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور پی اے ایف اکیڈمی میں پڑھایا۔ وہیں انہوں نے بطور چیف سائنٹسٹ بھی خدمات سرانجام دیں۔ بھارت کے خلاف 1965 کی جنگ کے دوران امریکا نے پاکستان کو اسپیئر پارٹس کی سپلائی بند کردی تاہم ٹورووچ نے یہ بات یقینی بنائی کہ مقامی طور پر تیار کردہ متبادل نظام کے تحت طیاروں کی تیاری کا عمل متاثر نہ ہو۔ بعد ازاں 1967 میں ٹورووچ پاکستان ائیرفورس سے ریٹائر ہوگئے۔

قبل ازیں 1966 میں حکومتِ پاکستان نے ٹورووچ کو خلائی اور ماحولیاتی تحقیقاتی کمیشن (اسپارکو) کا چیف سائنسدان بنا دیا اور بالآخر 1967 میں آپ ادارے کے سربراہ بن گئے۔ اسپارکو کے سربراہ کی حیثیت سے ٹورووچ نے خلائی پروگرام کا آغاز کیا۔ سونمیانی اسٹیلائٹ لانچ سنٹر کو اپ گریڈ کیا، فلائٹ ٹیسٹ کنٹرول کمانڈ، لانچ پیڈ کنٹرول سسٹم اور سستم انجینئرنگ ڈویژن کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے ایک پاکستانی سٹیلائٹ کی تعمیر اور لانچ کیلئے پروجیکٹ کا آغاز کیا جس نے پاکستان کو راکٹ ٹیکنالوجی کے میدان میں مہارت حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اس کے علاوہ بہت سے پاکستانی یہ نہیں جانتے کہ ٹورووچ نے مختصر اور درمیانے فاصلے کے بیلسٹک میزائلز ڈیزائن کیے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ترقی میں بھی حصہ لیا۔

بعد ازاں 8 جنوری 1980ء کے روز ٹورووچ ایک کار حادثے میں جان کی بازی ہار گئے جنہیں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کی شاندار خدمات پر ستارۂ پاکستان، تمغۂ پاکستان، ستارۂ قائدِ اعظم اور ستارۂ امتیاز سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ ایروناٹیکل انجینئرنگ میں عبدالسلام ایوارڈ اور خلائی طبیعیات میں آئی سی ٹی پی ایوارڈ، پاک فضائی کے پی اے ایف میوزیم میں ائیر کمودور ٹورووچ کے اعزاز میں ایک یادگار رکھی گئی اور اسپارکو نے بھی لاہور میں ولیڈ سلاجوزف ٹورووچ کے نام سے خلائی کمپلیکس قائم کیا۔

ٹورووچ کی اہلیہ صوفیہ نے کراچی اور راولپنڈی میں شاہین ائیر کیڈٹس کو گلائیڈنگ پڑھانے کے علاوہ کراچی یونیورسٹی میں اطلاقی ریاضی اور پارٹیکل فزکس پڑھائی۔ مزید برآں انہیں تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

آج تمام پاکستانی 1965ء کی جنگ سے لے کر آج تک پاک فضائیہ پر بے حد فخر کرتے ہیں، ائیر فورس کا دنیا کی بہترین فضائی افواج میں سے ایک کے طور پر کھڑا ہونا پولش پاکستانی ائیر کموڈورولیڈ سلاجوزف ماریان ٹورووچ کی قیمتی شرکت کے بغیرممکن نہ ہوسکا۔ پاکستانی قوم ان کی اور ان کے اہلِ خانہ کی پاکستان میں ادارہ سازی کیلئے خدمات اور شراکت کی شکر گزار ہے۔ 

Related Posts