دریائے علم و عمل،حضرت نفیسہ طاہرہ بنت الحسن

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حضرت نفیسہ طاہرہ بنت الحسن رضی اللہ عنہا، حضرت علی کرم اللہ وجہ کے سلسلۂ نسب سے تعلق رکھتی ہیں اور آلِ رسول ﷺ میں سے ہیں۔ آپ علیہا السلام کے دینی علم کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے مصر کے مشہورومعروف عالم دین اور فقہ کے بانی حضرت امام محمد بن ادریس الشافعی کو تعلیم دی اور یوں ایک تسلیم شدہ عالمِ دین اور استاذ الحدیث کہلائیں۔

مکہ مکرمہ کے تاریخی و مقدس شہر میں حضرت نفیسہ طاہرہ 11 ربیع الاوّل 762 سن عیسوی میں الحسن الانوربن زید البلاج کے ہاں پیدا ہوئیں جو ہمارے نبی کریم ﷺ کے نواسے حضرت حسن علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کے والد کو سن 767 عیسوی میں مدینہ کا گورنر مقرر کیا گیا جب آپ کی عمر صرف 5 سال تھی۔ بعد ازاں آپ اپنے والد کے ہمراہ مدینہ منورہ تشریف لائیں۔ قرآنِ پاک مکمل طور پر حفظ کیا اور حدیث اور اسلامی فقہ کا مطالعہ کیا۔ ابھی آپ سنِ بلوغت تک نہیں پہنچی تھیں کہ عوام نے آپ کو نفیسۃ العلم یاعلم کا خزینہ کے نام سے موسوم کردیا۔

جب آپ محض 16 برس کی تھیں تو آپ کی شادی ایک رشتہ دار اسحاق المطمئن سے کردی تھی جو امام جعفر بن صادق کے بیٹے تھے۔ بعد ازاں حضرت نفیسہ طاہرہ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ مصر منتقل ہو گئیں۔

بحیثیت عالمِ دین و مذہبی رہنما حضرت نفیسہ طاہرہ نے زندگی اللہ تعالیٰ کی یاد میں بسر کی۔ آپ دن رات نمازوں اور عبادات کی ادائیگی میں مشغول رہتی تھیں۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت نفیسہ طاہرہ کی بھانجی زینب رحمۃ اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ میں نے 40 سال تک اپنی خالہ نفیسہ کی خدمت کی۔ میں نے کبھی انہیں رات کو سوتے ہوئے یا دن میں کھانا کھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ سوائے اس کے، کہ اس روز روزہ رکھنا شرعاً حرام ہو۔ حضرت نفیسہ طاہرہ نے اپنی مال و دولت اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور بیماروں کی دیکھ بھال میں خرچ کردی۔

طلباء دور دراز سے ایک دین دار اور باشعور شخصیت کی حیثیت سے حضرت نفیسہ کے ہاں آتے جن میں سنی فقہ کے شافعی مکتب کے بانی امام الشافعی بھی شامل تھے۔حضرت نفیسہ طاہرہ نے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم کے دوران مالی اعانت بھی کی۔ نامور عالمِ دین ابنِ کثیر نے البدایہ والنہایہ میں یہ بات اس طرح بیان کی ہے کہ وہ ایک دولت مند خاتون تھیں، عوام، خاص طور پر مفلوج، شدید بیماری میں مبتلا افراد اور دیگر بیمار افراد کے ساتھ حسنِ سلوک ان کا شعار تھا۔ وہ عقیدت مند، سنجیدہ منش اور کثیر خصوصیات کی حامل تھیں۔ جب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ مصر پہنچے تو حضرت نفیسہ طاہرہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں اور بعض اوقات امام شافعی رمضان المبارک کی نمازوں کے دوران حضرت نفیسہ طاہرہ کی امامت کیا کرتے۔

امام شافعی حضرت نفیسہ طاہرہ سے قرآنِ کریم کی تفسیر اور احادیث سننے کیلئے تشریف لایا کرتے تھے اور زیادہ تر آپ ہی کے گھر میں مہمان اور مسجد میں تقاریر کے سامع ہوتے تھے۔ مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ امام شافعی نے آپ سے خیر و برکت کی دعا کی درخواست بھی کی۔

وقت گزرتا گیا اور پھر وہ لمحہ آیا جب حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بیمار ہو گئے اور انہیں موت کی قربت کا احساس ہوا تو انہون نے فوراً ہی اپنی وصیت تحریر کی جس میں حضرت نفیسہ طاہرہ سے نمازِ جنازہ میں شرکت کی استدعا کی۔ حضرت امام شافعی کی وفات کے بعد ان کی میت حضرت نفیسہ کے ہاں لائی گئی اور آپ نے ان کیلئے دعا بھی فرمائی۔

صرف امام شافعی ہی نہیں بلکہ حضرت نفیسہ طاہرہ نے بہت سے دیگر علمائے دین اور فقہائے عظام کو تعلیم دی جن میں امام عثمان بن سعید المصری، حضرت ذوالنون مصری، مصری الثمرقندی، امام ابوبکر العدفاوی اور ابوالحسن بن علی بن ابراہیم بھی شامل ہیں جنہوں نے قرآنی گرامر پر 10 جلدیں تحریر کیں۔تاریخ میں دیگر بھی علمائے کرام اور فقہائے عظام کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے آپ سے تعلیم حاصل کی۔

تاریخ میں ہمیں حضرت نفیسہ طاہرہ کے کشف و کرامات کا ذکر بھی ملتا ہے جو آپ سے لوگوں کی امداد کیلئے براہِ راست مدد یا دعا کے ذریعے ظاہر ہوئیں۔ مثال کے طور پر کسی نابینہ بچے کے صحتیاب ہونے کی دعا کرنا، دریائے نیل جب ایک سال چلنا شروع نہ ہوا تو مداخلت کرنا، جہاز کو ڈوبنے سے روکنے کیلئے دعا کرنا، دوا کے ذریعے قیدی کو آزاد کرانا اور لوگوں کی مشکلات کے حل کیلئے دعا کرنا وغیرہ۔

امام میتاولی اششراوی سے روایت ہے کہ جب حضرت نفیسہ طاہرہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھودی۔ ہر روز قبر میں داخل ہو کر عبادت کیا کرتیں۔ یہ یومِ حشر کیلئے آپ کی تیاری تھی کہ آپ قبر میں بھی عبادت کو نہیں بھولیں۔

بعد ازاں سن 825عیسوی میں رمضان کے آغاز میں حضرت نفیسہ طاہرہ بے حد بیمار ہوگئیں۔ لوگوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ اپنی طاقت کی بحالی کیلئے روزہ چھوڑ دیں لیکن آپ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں اللہ سے 30 سال سے دعا کرتی ہوں کہ روزے کی حالت میں اس سے ملاقات کروں۔ اب تم چاہتے ہو کہ میں روزہ افطار کر لوں؟ جب آپ کا انتقال ہوا تو عمرِ مبارک 63 برس تھی۔ آپ کے شوہر نے آپ کے جسدِ مبارک کو جنت البقیع میں دفن کرنا چاہا تو اہلِ مصر نے اس سے انکار کردیا۔ اہلِ مصر کا کہنا تھا کہ آپ حضرت نفیسہ طاہرہ کو اسی جگہ دفن کیجئے جہاں انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے قبر کھودی تھی۔ مصر کے گورنر اور دیگر افراد کی درخواست پر حضرت نفیسہ کے شوہر کو بھی یہی رائے تسلیم کرنی پڑی اور آپ مصر میں ہی دفن ہوئیں۔ 

بے شک حضرت نفیسہ طاہرہ بنت الحسن علم و حکمت کی ایک چمکتی ہوئی کتاب تھیں اور رسول اکرم ﷺ کے اہلِ خانہ کی جانب سے امت کیلئے برکت کا ایک وسیلہ تھیں۔ آپ کا درویشانہ طرزِ زندگی اور اللہ سے مستقل عقیدت ہم سب کیلئے ایک سبق ہے۔ نیز اسلام کے عظیم عالمِ دین اور فقیہہ حضرت امام شافعی کی استاد ہونے کے ناطے ہمیں آپ کی ذاتِ مبارک سے یہ درس بھی ملتا ہے کہ عظیم اسلامی علماء صنف کی حدودوقیود سے آزاد ہو کر علم حاصل کیا کرتے تھے۔ 

Related Posts