گرنے سے پہلے سنبھل جائیں۔۔۔

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کورونا وائرس نے پوری دنیا کو بری طرح متاثر کیا ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے بھی اس موذی مرض کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور عملاً پوری دنیا اس وقت گھروں میں محصور ہے۔

امریکا اور یورپ بھی کورونا کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں،ایسے میں مملکت خدا داد پاکستان میں کورونا وائرس کی وباء ایک آفت بن کر نازل ہوئی ہے۔ پاکستان کی پہلے سے عدم استحکام سے دوچار معیشت اس وقت مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔

دنیا کے بااثر اور مستحکم ممالک کے پاس تو وسائل ہیں جن کی بناء پر وہ ان مسائل سے نکل سکتے ہیں،لیکن پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم صورتحال کا مقابلہ کرسکیں۔

پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا ستون بیرون ممالک میں موجود پاکستانی ہیں جو دیار غیر سے زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے اور پاکستان دنیا سے لین دین کے معاملات چلاتا ہے۔

پاکستان کی ایکسپورٹ امپورٹ کے مقابلے میں تین گنا کم ہے اس لئے پاکستان کو زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور اس وقت پوری دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کے بیروزگار ہوئے ہیں اور دنیا بھر میں مقیم لاکھوں پاکستانی بھی اس صورتحال سے مشکلات کا شکار ہیں۔

ہزاروں افراد وطن واپسی کیلئے ایئرپورٹس پر موجود ہیں اور اگر صورتحال برقرار رہی تو پاکستان کی معیشت کو مزید نقصان پہنچے گا۔

کوروناکی وباء کے باوجود گزشتہ ماہ مارچ میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 2 ارب ڈالر پاکستان بھجوائے جبکہ رواں ماہ اپریل میں بیرون ممالک سے آنیوالے ریمی ٹینس میں ایک ارب 80کروڑ ڈالر تک ہوسکتے ہیں۔

لیکن آنیوالے مہینوں میں لاک ڈاؤن، بیروزگاری اور پاکستانی ہنرمندی کی نوکریوں سے برطرفی کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر گرسکتے ہیں،جس کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ کئی بحرانوں کے باوجود پاکستان مشکلات میں گھرنے کے باوجوداستحکام کی جانب گامزن ہوجاتا ہے لیکن اس وقت لوگ گھروں میں محصور ہیں اور کھڑی فصلیں  تباہ ہورہی ہیں،اگر فصلیں خراب ہوگئیں تو پاکستان کو اس کا ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

حکومت کاروباری طبقے کو مشروط طور پر کاروبار کی اجازت دے کیونکہ ہمارے ملک میں کاروبار کا دارومدار سود پر ہے جس کی وجہ سے تاجر وصنعت کار سود اور بینکوں کی قسطوں کی ادائیگی کیلئے پریشان ہیں اور کاروبار منجمد ہونے کی وجہ سے ملازمین کو برطرف کررہے ہیں۔

 اور اگر اسی طرح ملازمین کی نوکریوں سے برطرفی کا سلسلہ جار ی رہا تو آنیوالے دنوں میں بیروزگاری بڑھ جائیگی اور بھوک، بدحالی اور نقص امن کے خدشات پیدا ہوجائینگے جس سے نکلنا مشکل ہوجائے گا۔

اسٹیٹ بینک نے ملازمین کو نوکری سے برطرف ہونے سے بچانے کیلئے ری فنانس اسکیم کا اجراء کرکے تاجروں وصنعت کاروں کیلئے بہت اچھا اقدام اٹھا یاہے، حکومت معیشت کی بحالی کیلئے بلاسود قرضوں کا اعلان کرے اور ٹیکسوں  میں چھوٹ اور مراعات بھی دے تاکہ تاجر اپنے نقصان کا ازالہ کرنے کے ساتھ ملک کی معیشت کو سہارا دینے کیلئے اپنا کردار ادا کرسکیں۔

موجودہ صورتحال میں تاجروں وصنعت کاروں کیلئے اپنے مال کی لاگت پوری کرنا اور ملازمین کی تنخواہیں اور بینکوں کا سود اور اقساط دینا کسی صورت ممکن نہیں ہے اور پاکستان میں شرح سود انتہائی زیادہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی کاروباری ادارے بینکوں سے قرض لے کر کاروبار کرنے کے بجائے کام نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔کیونکہ انتہائی بلند شرح سود کی وجہ سے کاروبار کرنا مشکل ہوچکا ہے۔

حکومت شرح سود کو کم کرکے تاجروں کو مراعات دے تاکہ کاروباری برادری پاکستان کو مشکل سے نکالنے کیلئے آگیآسکے کیونکہ حکومت تاجروں وصنعت کاروں کی مدد کے بغیر ملک کو معاشی مشکلات سے نہیں نکال سکتی۔

1980ء کی دہائی میں پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری خطے میں سب سے آگے تھی لیکن ناقص حکومتی پالیسیوں  نے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑکر رکھ دیا ہے، پاکستان کی انڈسٹری اس وقت لولی لنگڑی اور اپاہج ہوچکی ہے، ایسے میں جوصنعت کارخود کو سہارا نہیں دے سکتے وہ حکومت کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟۔

انڈسٹریز اور زراعت کا شعبہ پاکستان کے تمام دکھ دور کرسکتا ہے لیکن اس کیلئے کسانوں کو سبسڈی دی جائے اور تیار فصلوں کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے کٹائی کی اجازت دی جائے تاکہ ملک میں  زرعی اجناس کی قلت نہ پیدا ہو۔

معاشی استحکام کیلئے زرعی شعبہ کو فعال کیا جائے اور اس وقت چین میں کاروبار زندگی معطل ہونے کی وجہ سے پاکستان کے پاس ایکسپورٹ بڑھانے کابہترین موقع ہے جس سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کی معیشت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔

کورونا وائرس سے بچاؤکیلئے لاک ڈاون کی وجہ سے متوسط اور نچلا طبقہ ہی نہیں بلکہ تمام طبقات متاثر ہوئے ہیں، ایسے میں  بیرونی امدادی پیکیجز اور حکومت اقدامات وقتی طور پرتو بہتر ثابت ہوسکتے ہیں  لیکن مشکلات سے نکلنے کیلئے کاروبارکے مواقع بڑھانا ہونگے۔

سی پیک منصوبے میں انڈسٹریز لگانے کیلئے تاجروں اور صنعتکاروں کو مراعات دی جائیں، زرعی شعبے کوفعال کیا جائے اور کاروباری مراکز کھولنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔

پاکستان قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہم گرنے کے بعد یقین کرتے ہیں کہ سامنے گڑھا ہے، پاکستان میں کورونا کے کیسز5946تک پہنچ چکے ہیں  اور آئندہ دنوں میں صورتحال مزید خراب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

عوام لاک ڈاؤن کی مکمل پاسداری کرتے تو شائد حالات اتنے خراب نہ ہوتے تاہم ابھی بھی کچھ کہنا بعید ازقیاس ہے کیونکہ پاکستان میں ٹیسٹنگ کٹس کی کمی کی وجہ سے حقیقی اعداد وشمار سامنے نہیں آسکے۔

حکومت ٹیسٹنگ کٹس کی فراہمی کیلئے اقدامات اٹھائے اور مخیر حضرات بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالیں اور ٹیسٹنگ کٹس کی امپورٹ کیلئے حکومت کی مدد کریں اور عوام نبی کریم ﷺ نے 14 سوسال پہلے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا تھا جس کو آج پوری دنیا مان رہی ہے۔

قوم صفائی، پاکیزگی، پردہ، حلال کھانے، گرم پانی پینیم غرارے کرنے، بھاپ لینے اور قدرتی خوراک پر توجہ دے اور حکومتی ہدایات پر مکمل طور پر عملدرآمد کرے تاکہ اس آزمائش سے نکلا جاسکے۔

Related Posts