گوادر احتجاج

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہزاروں افراد نے خواتین اور بچوں سمیت گوادر کی اہم سڑکوں اور گلیوں میں احتجاجی مارچ کیا، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ متعلقہ حکام عام آدمی کی حالت زار پر توجہ دیں، جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں بندرگاہی شہر کے لوگوں نے ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کا آغاز کیا۔

گوادر جسے کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا گیا اور سیاسی سازشوں کے باعث یہاں کے عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا، مگر اب گوادر شہر کے باسی اپنے حق کے لئے آواز بلند کررہے ہیں، جہاں مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ آس پاس کے اضلاع کے لوگ بھی تقریباً ایک ماہ سے احتجاج میں مصروف ہیں، وہ بھی پارٹی کے جھنڈے کے بغیر۔

’گوادر کو حق دو‘ تحریک کے پاس تقریباً 20 مطالبات ہیں جو وہ صوبائی حکومت سے پورے کروانا چاہتے ہیں، اس میں پینے کے پانی کی شدید قلت اور علاقے میں تعلیم اور صحت کی سہولیات کی سنگین صورتحال کے ساتھ ساتھ ساحل کے ساتھ ٹرالروں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری کو روکنا شامل ہے، کیونکہ مقامی ماہی گیروں پر اس کے اثرات پڑ رہے ہیں۔

گوادر کی بندرگاہ سی پیک کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے، گوادر ایک ابھرتی ہوئی بندرگاہ ہے، لیکن یہ ستم ظریفی ہے کہ یہاں کے لوگ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے کے لئے میدان میں نکل پڑے ہیں۔

اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے لئے ان کی آوازیں بلند ہوتی جا رہی ہیں اور اب لگتا یوں ہے کہ بندرگاہی شہر میں آئے دن مطالبات کے حق میں جمع ہونے والے ہزاروں افراد اب اپنے مطالبات منوائے بغیر پیچھے نہیں ہٹنے والے۔ مقامی لوگوں کا شکوہ ہے کہ انہیں یہاں نظر انداز کیا جاتا ہے، جبکہ غیر مقامی افراد فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ بلوچستان کے وزیر منصوبہ بندی میر ظہور احمد بلیدی نے مولانا ہدایت الرحمان کے ساتھ بات چیت میں پیش رفت کی اطلاع دی ہے۔ مزید برآں، چین نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہے کہ دونوں ممالک کی جانب سے شروع کیے جانے والے مشترکہ راہداری منصوبے سے مقامی آبادی کو فائدہ پہنچے۔

اس پیش رفت کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ صرف بنیادی حقوق کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہمارے ترقیاتی اور کنیکٹیویٹی منصوبوں کے مستقبل سے بھی متعلق ہے۔ بلوچستان حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو مظاہرین کے مطالبات کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ ورنہ گوادر بدامنی کی چنگاری بن سکتا ہے۔

Related Posts