ماہرینِ فلکیات نے سائنسی تاریخ کا سب سے بڑا 100 سے 200 کلومیٹر طویل دمدار ستارہ دریافت کیا ہے جس کے 2031ء میں ہمارے نظامِ شمسی کے قریب سے ہو کر گزرنے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ماہرین کا دریافت کردہ دمدار ستارہ آج سے 10 سال بعد سورج، زمین، مریخ اور مشتری سمیت نظامِ شمسی کےتمام سیاروں کے قریب آجائے گا جس کی دریافت کا سہرا یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے سر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایلون مسک کی ایپل کمپنی کے خلاف ایپک گیمز کی حمایت
مذکورہ یونیورسٹی کے فلکیات دان پروفیسر گیری برنسٹائن اور پی ایچ ڈی کے طالبِ علم پیڈرو برنارڈینیلائی نے تاریخ کا طویل ترین دمدار ستارہ دریافت کیا جسے برنسٹائن برنارڈ ڈینیلائی کا نام دے دیا گیا۔ 10سال بعد دمدار ستارہ دوربین سے دیکھا جاسکے گا۔
قبل ازیں دریافت کیے گئے دمدار ستاروں کے مقابلے میں نئے دریافت کیے گئے ستارے کی طوالت 1000 گنا زیادہ ہے جو کروڑوں سال سے زمین سے دیگر دمدار ستاروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ دوری پر زیرِ گردش رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی ادارے نے 4 لاکھ کہکشاؤں کی دلفریب ویڈیو جاری کردی
فلکیات دانوں کو دمدار ستاروں میں دلچسپی اس لیے بھی رہی ہے تاکہ ان کی مدد سے کائنات کے ارتقاء اور بگ بینگ تھیوری کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔ عظیم ترین دمدار سیارے کی دریافت چلی کی سیرو ٹولولو امریکی رسدگاہ پر نصب دوربین سے عمل میں لائی گئی۔
یہ دوربین 4 میٹر کا قطر رکھتی ہے جس پر ڈارک انرجی کیمرہ نصب کیا گیا ہے۔ فلکیات دانوں نے دمدار سیارہ دریافت کرنے سے قبل کم و بیش 6 سالہ تصاویر اور دیگر ڈیٹا کا تجزیہ کیا جسے جانچنے کیلئے یونیورسٹی آف الینوئے کے سپر کمپیوٹنگ مرکز سے معاونت حاصل کی گئی۔
حیرت انگیز طور پر 6 سال طویل عرصے کے بھاری بھرکم ڈیٹا کے ذریعے دیکھے جانے والے دمدار ستارہ صرف 32 مرتبہ نظر آیا جبکہ دوربین کے ذریعے دیگر متعدد فلکیاتی اجسام کا مشاہدہ بھی کیا گیا اور ان کے متعلق بھی اعدادوشمار اکٹھے کیے گئے ہیں۔
دمدار ستارے، سیارے اور سورج
ہمارے نظامِ شمسی میں سورج کو ایک ساکن جسم سمجھا جاتا ہے اور اسی لیے فلکیات دانوں کے نزدیک یہ ایک ستارہ ہے، تاہم بعد ازاں سورج کی حرکت کا بھی مشاہدہ کیا گیا۔ اسی طرح سیارے وہ متحرک اجسام ہیں جو سورج کے گرد چکر کاٹتے نظر آتے ہیں۔
تاہم دمدار ستاروں کیلئے فلکیات میں کومٹ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو گردوغبار اور برف پر مشتمل ہوتے ہیں اور سورج کے قریب آنے سے ان پر موجود برف پگھل جاتی ہے جس سے کئی کلومیٹرز پر محیط طویل دم بن جاتی ہے۔
سورج کے گرد چکر کاٹنے والے سیاروں کے مقابلے میں دمدار ستاروں کا مدار بیضوی ہوتا ہے اور ان کے عشروں پر محیط طویل سفر کی داستانیں بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ ہر 76 سال بعد نظر آنے والا ہیلے کا دمدار ستارہ اولین مشہور ہونے والے دمدار ستاروں میں اہم سمجھا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سمیت دُنیا بھر میں جیمینیڈ شہابِ ثاقب کا نظارہ