جب ہم فلسطین یا مسجد اقصیٰ کی بات کرتے ہیں تو اس صورت میں جب مسجد اقصیٰ کا ذکر آئے تو ہر مسلمان جذبہ ایمانی میں مغمور ہوجاتا ہے، صرف فلسطینی نہیں بلکہ مسلمانان عالم کی مسجد اقصیٰ سے جذباتی وابستگی ہے، ایسے میں جب مسجد اقصیٰ کا انتظام و انصرام سعودی عرب کے حوالے کیا جارہا ہے تو یہ سعودی عرب کے کردار کو خطے میں مزید دوام بخشنے کے مترادف ہے اور امریکا کے مشرق وسطیٰ کیلئے نئے منصوبے میں سعودی عرب کا ایک نمایاں کردار نظر آرہا ہے۔
بادی النظر میں دیکھا جائے تو کسی بھی مسلمان کیلئے مسجد اقصیٰ کا انتظام سعودی عرب کے حوالے کرنا ایک احسن اقدام ہوسکتا ہے اور مکہ اور مدینہ کے ساتھ ساتھ اگر مسجد اقصیٰ یاقبلہ اول کا انتظام بھی سعودیہ سنبھالتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اس معاملے کو گہرائی سے دیکھنے والے اس اقدام کو فلسطین کے معاملے سے نتھی کرینگے۔
فلسطین کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ “مسجداقصیٰ ہمارا دارالخلافہ ہوگا اور مسجد اقصیٰ چونکہ فلسطین کی حدود میں آتی ہے اور اسرائیل چونکہ قابض ہے اس لئے اسرائیل مسجد اقصیٰ سے تسلط ختم کرے “تو سعودی عرب کو انتظام دینے سے یہ معاملے ختم یا دفن ہوجائیگا جس سے بلاشبہ اسرائیل کو فائدہ ہوگا۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے پوری دنیا دو ریاستی نظریہ پر کام کررہی تھی اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے مطابق اقوام عالم یہ سمجھتی تھیں کہ مسئلہ فلسطین دوریاستی نظریہ سے ہی حل ہوسکتا ہے اور اس سے خطے میں استحکام ممکن ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں یا 15 سال سے اسرائیل دوریاستی نظریئے سے قطع نظر یک ریاستی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور اسرائیل کی کوشش ہے کہ فلسطین کے الگ ریاست کا تشخص ختم کرکے اس کو بھی اسرائیلی پرچم تلے لایا جائے اور پس پردہ اس مقصد کے حصول کیلئے کوششیں بھی جاری ہیں۔
فلسطین کو اسرائیل کے جھنڈے تلے آنے کیلئے کئی مراعات اور ترقیاتی منصوبوں کے سنہری خواب بھی دکھائے جارہے ہیں اور آزادی سے رہنے کی یقین دہانیاں کروائی جارہی ہیں لیکن دور حاضر یا ماضی قریب میں دیکھیں تو اسرائیل میں رہنے والے فلسطینیوں کو بھی دوسرے درجہ کے شہری سمجھا جاتا ہے اور ان کو برابری کے حقوق نہیں ملتے اور اگر مستقبل میں ایک ریاستی ایجنڈے کی تکمیل ہوتی ہے تو بلاشبہ اسرائیل غالب آجائیگا اور فلسطین کے لوگ اسرائیل کے زیرتسلط دوسرے درجہ کے شہریوں کی طرح رہنا شروع ہوجائینگے۔
سعودی عرب کا جہاں تک تعلق ہے تواسلامی تعاون تنظیم او آئی سی میں بھی سعودی منشاء غالب رہتی ہے،فلسطین کے معاملے میں بھی جب اسرائیلی دارالخلافہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا جارہا تھا تو تب بھی سعودی عرب نے ظاہراً تو کچھ احتجاج کیا لیکن 57 ممالک کے پلیٹ فارم سے کوئی موثر احتجاجی تحریک دیکھنے میں نہیں آئی حالانکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اسرائیل اپنا دارالخلافہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا مجاز نہیں تھا لیکن سعودی عرب نے خاموش رہ کر پس پردہ اسرائیل کی معاونت کی ۔
سعودی عرب، مصر اور دوسرے خلیجی ممالک اشارہ دے چکے ہیں کہ فلسطین کو الگ ملک بنانے کا مطالبہ اب ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے اور وہ مستقبل میں ایسا ہونے کا امکان بھی نہیں دیکھ رہے ،سعودی شہزادہ محمد بن سلمان بھی کہہ چکے ہیں کہ فلسطینیوں کو اسرائیل اور امریکا کی طرف سے دی جانے والی امن کی تجاویز کو قبول کرنا چاہیے ورنہ انھیں خاموش رہنا چاہیے۔
اسرائیل نے بہت سے ایسے عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر لیے ہیں جنھوں نے 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد کبھی بھی اسے تسلیم نہیں کیا تھا اور موجودہ عالمی منظر نامہ اور سعودی عرب کا اسرائیل کی طرف واضح جھکاؤ اس بات کی طرف اشارہے کہ مستقبل میں مزید مسلمان ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرینگے اور تمام تر حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کا گریٹر اسرائیل کا منصوبہ اپنی تکمیل کے قریب ہے۔