آرمی ایکٹ معطل، کیا حکومت کو سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کرنی چاہئے؟

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

لاہور ہائیکورٹ
پاکستان کی تاریخ میں پہلی سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست

رواں ماہ کے دوران پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے بہت سے اہم فیصلے کیے تاہم 24اکتوبر کو سامنے آنے والے فیصلے میں سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے ٹرائلز سے متعلق آرمی ایکٹ کی شق ٹو 1 ڈی کو کالعدم قرار دے دیا۔

شق کالعدم قرار دینے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے 9 اور 10 مئی میں گرفتار کیے گئے ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے منتقل کرنے کا حکم دے دیا جبکہ آرمی ایکٹ معطل کیے جانے کے بعد ایک نیا سوال پیدا ہوگیا ہے کہ کیا موجودہ نگران حکومت کو کوئی نظرِ ثانی اپیل دائر کرنی چاہئے؟

ڈاکٹر اسرار احمد نے اسرائیل فلسطین جنگ کے بارے میں کیا پیشگوئی کی تھی؟

سپریم کورٹ کا فیصلہ

آج سے 7روز قبل سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے ٹرائلز کے متعلق آرمی ایکٹ کی شق ٹو 1 ڈی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے گرفتار ملزمان کے مقدمات فوجی سے فوجداری عدالتوں میں منتقل کرنے کا حکم دیا۔ مقدمے کی سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی ججز بینچ نے کی۔

یہ بھی پڑھیں:

سائفر کیس، عمران خان کو کیا سزا ہوسکتی ہے؟

چار ایک کی اکثریت سے سنائے گئے فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل نے 9 اور 10 مئی کے واقعات میں ملوث 103 گرفتار ملزمان کی فہرست مہیا کی، اگر اور بھی شہری ملوث ہوئے تو ان کے خلاف بھی مقدمہ فوجی عدالتیں نہیں چلا سکتیں۔

آرمی ایکٹ کیا ہے؟

پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ان جرائم کا ذکر موجود ہے جن کا ٹرائل اس ایکٹ کے تحت اسی صورت کیا جاسکتا ہے جب ان جرائم کا ارتکاب فوجی اہلکار یا افسران کرتے پکڑے جائیں۔ تاہم اسی ایکٹ کی کچھ شقوں میں یہ قانون بعض صورتوں میں عام شہریوں پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے۔

آج سے 8سال قبل پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ نے21 ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کی منظوری دی جن کے تحت کچھ جرائم میں ملوث افراد کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی جا سکتی ہے۔

مذکورہ جرائم میں پاکستان کے خلاف جنگ، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ،  اغوا برائے تاوان کے مجرم، غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو مالی معاونت دینا، مذہب اور فرقے کے نام پر ہتھیار اٹھانا شامل ہیں۔

ان مجرموں میں کسی دہشت گرد تنظیم کے اراکین، سول اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے، دھماکہ خیز مواد رکھنے یا کہیں لانے لے جانے میں ملوث افراد، دہشت اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا کرنے والے اور بیرونِ ملک سے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے عناصر بھی شامل ہیں۔ 

سیکشن ٹو 1ڈی

مذکورہ آرمی ایکٹ کے سیکشن ٹو 1 ڈی میں 2 ایسی شقیں ہیں جن کے تحت عام شہریوں کا ٹرائل ہوسکتا ہے جن میں پہلی جاسوسی یا عسکری راز فراہم کرنا اور دوسری فوجیوں کو حکم نہ ماننے پر اکسانا یا پھر فوج کے ادارے کے خلاف اکسانے کے جرائم شامل ہیں۔

دریں اثناء اگر کوئی شہری دشمن کو ملک کا کوئی قومی راز فراہم کرتا ہے اور اس کے ثبوت موجود ہیں تو ایف آئی آر کے اندراج کے بعد اسے گرفتار اور فوج میں اس کا ٹرائل ہوسکتا ہے۔

دوسری شق کے تحت اگر کوئی شخص کسی کو فوجی کمان کے خلاف بغاوت، فساد برپا کرنے کے لیے اشتعال دلانے، اُکسانے یا ترغیب یا تحریک دینے کا سبب بنے تو اس صورت میں بھی فوج اس کے خلاف آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کے تحت ٹرائل کرسکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چاہے کسی تقریر کے ذریعے ہی اکسایا گیا ہو، اگر اس سے فوج کے خلاف اکسانے کا تاثر بھی ملے تو اس صورت میں بھی اس شخص کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔اگر کوئی شخص تقریر میں کہتا ہے کہ فوج یا اپنی کمان کا حکم نہ مانیں تو اس پر بھی یہ قانون نافذ ہوگا۔

عمران خان پر قانون کا اطلاق 

بدقسمتی سے سابق وزیر اعظم عمران خان نے 10 اپریل کو تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں وزارتِ عظمیٰ کھو دی اور پھر مسلسل اپنی تقاریر میں فوج کے خلاف گفتگو کی اور بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ عمران خان پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوسکتا ہے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے متعدد فوجی افسران کے نام لے کر ان کے خلاف اپنے خطابات میں گفتگو کی۔ پی ٹی آئی مخالف قوتوں کا ماننا ہے کہ عمران خان کے پراپیگنڈے کے نتیجے میں ہی 9 مئی کا تباہ کن واقعہ رونما ہوا۔

نظرِ ثانی اپیل کی ضرورت

ضرورت اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ آرمی ایکٹ سے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے، آئین کے مطابق فوج، ریاستی اداروں اور ملک کیخلاف کسی بھی جرم پر کارروائی فوجی عدالتوں میں ہونی چاہئے، ریاستی اداروں کیخلاف جرائم کے مرتکب عناصر کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں کارروائی کرکے انہیں جلد از جلد سزا دلوانا ضروری ہے۔

ضروری ہے کہ آئندہ 9 مئی جیسے واقعات کی آڑ میں ملک دشمن عناصر کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔اس سے قبل 2015 میں پارلیمنٹ ترمیم کے ذریعے فوجی تنصیبات اور عسکری مراکز پر کسی بھی قسم کے حملوں کے مرتکب سویلین کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت قانونی کارروائی کی منظوری دے چکی ہے۔

بعض سیاسی قائدین کا سپریم کورٹ کے فیصلے کو مایوس کُن قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ سپریم کورٹ خود ماضی میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو درست قرار دے چکی ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ماضی میں دیے گئے عدالت عظمیٰ کے چار فیصلوں کے متصادم ہے۔

آرمی ایکٹ کے تحت ہزاروں عام شہریوں کے مقدمات نمٹائے جا چکے ہیں جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان اِن قوانین کی روشنی میں متعدد فیصلے بھی دے چکی ہے۔ اس معاملے کو سیاسی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ قومی سلامتی کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔

Related Posts