اسلام آباد: حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی مدت ملازمت میں توسیع کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے صدارتی آرڈیننس کے لیے مسودے کی منظوری دے دی ہے، امید کی جارہی ہے کہ آرڈیننس کا اجرا آج کردیا جائے گا۔ آرڈیننس پر بحث کے لیے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی وزراء کا اہم اجلاس ہوا۔
وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم ، وزیر اعظم کے مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان اور مشیر داخلہ اور احتساب مرزا شہزاد اکبر نے قانون میں تبدیلی کی تجاویز پیش کیں ۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ایک سے زیادہ ترمیم تجویز کی گئی ہیں ۔ وزیراعظم کی منظوری کے بعد مسودے کی سمری مزید کارروائی کے لیے صدر عارف علوی کو بھیج دی جائے گی۔
اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس بات کی تصدیق کی کہ حکومت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کی تقرری کے مسودے کو حتمی شکل دے دی ہے ، جس سے اپوزیشن سے نئے سربراہ کے انتخاب پر مشاورت کی “قانونی حیثیت” ختم ہو جائے گی۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ نیا آرڈیننس احتساب عدالتوں کو بااختیار بنائے گا ، کیونکہ حکومت نظام کو مضبوط بنانا چاہتی ہے افراد کو نہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہ بہتر ہوتا کہ اپوزیشن نام تجویز کرتی لیکن بدقسمتی سے وہ ایسا نہیں کر سکے۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ حکومت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے مذاکرات نہیں کرے گی، کیونکہ وہ نیب کیس میں ملزم تھے۔
جسٹس جاوید اقبال کو 8 اکتوبر 2017 کو اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے درمیان اتفاق رائے کے بعد چیئرمین نیب مقرر کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ موجودہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال 8 اکتوبر کو اپنی چار سالہ مدت پوری کر رہے ہیں جس میں وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت کا عمل شروع ہونے کے آثار نہیں ہیں۔
نیب آرڈیننس کی دفعہ 6 بی
نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 6 (b) میں لکھا ہے “ایک چیئرمین نیب ہوگا جو صدر کی طرف سے [قائد ایوان اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف] کی مشاورت سے مقرر کیا جائے گا۔ نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 6 بی کے تحت چار سالہ مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد چیئرمین نیب کو توسیع نہیں دی جاسکتی ، تاہم صدارتی آرڈیننس کے تحت مدت ملازمت میں توسیع دی جاسکتی ہے۔ تاہم سپریم کورٹ اس توسیع کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: “پنڈورا پیپرز” میں آنے والے پاکستانی سیاستدانوں کی فہرست