“خدا حافظ حماس”: اب کیا ہوگا؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

5 مارچ کو، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے “ٹروتھ سوشل” پلیٹ فارم کے ذریعے حماس کو سخت دھمکی دی، اپنی پیغام کا آغاز کرتے ہوئے کہا “شالوم حماس”! پھر وضاحت کرتے ہوئے کہ اس کا مطلب ہے “خدا حافظ!” اس وقت ٹرمپ نے حماس سے فوری طور پر تمام یرغمالیوں کی رہائی اور مقتولین کی لاشوں کی واپسی کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو اس کا مطلب “ان کا خاتمہ” ہوگا۔

ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اسرائیل کو وہ تمام وسائل فراہم کرے گا جو اسے “مشن مکمل کرنے” کے لیے درکار ہیں اور اگر حماس نے ان کے مطالبات پر عمل نہ کیا تو وہ محفوظ نہیں رہے گی۔ ٹرمپ نے حماس سے رہنماؤں کو غزہ چھوڑنے کی اپیل کی اور کہا کہ اگر یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا تو غزہ کے باشندوں کا روشن مستقبل منتظر ہوگا، ورنہ سنگین نتائج ہوں گے۔ اس دھمکی کے صرف دو ہفتے بعد، اسرائیلی طیاروں نے غزہ کی محصور پٹی پر تباہ کن بمباری شروع کر دی۔ جس سے پہلے ہی دن 170 بچوں سمیت 436 افراد شہید اور 560 سے زائد زخمی ہوئے اور یہ تعداد ہر لمحے بڑھ رہی ہے۔ یہ حملہ عین سحری کے وقت شروع ہوا، جب غزہ ڈیڑھ سال کے طویل اور شدید حملے کے زخموں کو سہلا رہا تھا۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کا مقصد مزاحمت کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے، جس کے حصول تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ اگرچہ اس نے تباہ کن طاقت کا استعمال کیا ہے، مگر فلسطینی مزاحمت کو مکمل طور پر ختم کرنا حقیقت پسندانہ نہیں لگتا، کیونکہ وہ بار بار اپنی صلاحیتوں کو دوبارہ تعمیر کر کے بدلتی ہوئی حالات کے مطابق ڈھالنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ نسل کشی کی اس نئی لہر کا دوسرا مقصد ٹرمپ کے منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اہل غزہ کو بے دخل کرنا ہے۔ لیکن اس کے عملی نفاذ میں اب بھی لوجسٹک اور سیاسی پیچیدگیاں حائل ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ غزہ کے باشندوں کو جبراً نکالنے کی کوئی بھی کوشش عالمی سطح پر ایک بڑے سفارتی بحران کو جنم دے سکتی ہے، جس کے باعث اسرائیل اپنے اقدامات میں زیادہ محتاط ہو گا اور “اختیاری جلاوطنی” کو اقتصادی اور معاشی پابندیوں کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ دوسری جانب، بڑی طاقتیں اس تنازعے کو اپنے وسیع تر ایجنڈوں کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں، جہاں اسے علاقائی اور بین الاقوامی پیچیدہ پالیسیوں کے تحت دباؤ ڈالنے یا سودے بازی کا ایک آلہ سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ سیاسی اور فوجی حسابات بدل رہے ہیں، غزہ اس عالمی توازن کا سب سے بڑا شکار بنا ہوا ہے۔

اسٹار لنک کو پاکستان میں کام کا این او سی مل گیا، لائسنس کب ملے گا؟ سروس کب شروع ہوگی؟

دوسری جانب اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) نے کہا ہے کہ اسرائیل نے جنگ بندی کے معاہدے کو سبوتاژ کرتے ہوئے فلسطینی عوام کا قتل عام شروع کردیا ہے۔ اس کے باوجود عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ حماس نے ایک بیان میں کہا کہ تحریک نے معاہدے کی مکمل پاسداری کی اور اس کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی کوششیں کیں، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو جو اپنی داخلی مشکلات سے نکلنے کے لیے راہ تلاش کر رہے ہیں، نے ہمارے عوام کے خون کی قیمت پر جنگ دوبارہ شروع کرنے کو ترجیح دی۔
جنگ کا دوبارہ آغاز؟
اسرائیل کے غزہ پر اس شدید ترین حملے کے پیچھے دراصل دو اہم وجوہات ہیں: پہلی وجہ خالص سیاسی ہے جو اسرائیلی حکومت کی کارکردگی اور خود بنیامین نتن یاہو کے حالیہ فیصلوں سے جڑی ہے اور دوسری وجہ حماس پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ ایک ایسا معاہدہ کیا جا سکے جو نتن یاہو اور امریکی انتظامیہ کی خواہشات کو پورا کرے۔ سب جانتے ہیں کہ نتن یاہو نے غزہ پر اچانک دوبارہ حملہ شروع کرکے اپنے خلاف داخلی تحقیقات سے بچنے کی کوشش کی ہے، خاص طور پر شاباک کے سربراہ رونین بار کی برطرفی کے حوالے سے وہ سخت تنقید کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ منگل کے روز ان کے خلاف ایک مظاہرے کی کال بھی دی گئی تھی کہ انہوں نے راتوں رات جنگ چھیڑ دی۔ ورنہ نتن یاہو کو حکومت کے موجودہ اتحاد کے بکھرنے کا خوف تھا اور اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ وہ اس مہینے کے آخر میں بجٹ کا قانون پاس نہیں کر پائیں گے۔ جنگ اسرائیلی انتہاپسندوں کو یکجا رکھتی ہے، چاہے اس کی قیمت غزہ کے بے گناہ عوام کی جانوں کی صورت میں ہو یا اپنے قیدیوں کی ہلاکت کی صورت میں۔ موجودہ حملے کا مقصد حماس کی فوجی صلاحیتوں کو مکمل طور پر ختم کرنا اور اس کے شہری انتظام کو تباہ کرنا ہے تاکہ وہ آئندہ حکومت کے امور چلانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے چن چن کر حماس کے اہم رہنمائوں کو نشانہ بنایا ہے۔ پہلے ہی روز تحریک نے غزہ میں حکومتی اور سیکورٹی شعبوں کے 6 رہنماؤں کی شہادت کا اعلان کیا ہے، جن میں وزیر اعظم عصام الدعلیس، سیاسی دفتر کے ارکان یاسر حرب اور محمد الجماصی، نائب وزیر انصاف احمد الحتہ، نائب وزیر داخلہ محمود ابو وطفہ اور داخلی سیکورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل بہجت ابو سلطان شامل ہیں۔ اس کے ساتھ سرایا القدس کے ترجمان ابو حمزہ بھی اپنی فیملی سمیت شہید ہوگئے۔
مذاکرات کا مستقبل؟
19 جنوری کو، فلسطینی مزاحمت اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ عمل میں آیا، جس میں قطری، مصری اور امریکی ثالثی شامل تھی، یہ معاہدہ غزہ پر 15 ماہ تک جاری رہنے والے حملوں کے بعد کیا گیا۔ اس معاہدے کو تین مراحل میں نافذ کیا جانا تھا، لیکن اسرائیل نے معاہدے کی شرائط پر عمل نہیں کیا، خاص طور پر غزہ میں امدادی سامان کی فراہمی کے حوالے سے۔ اب غزہ کے شہریوں پر دوبارہ بمباری کے بعد، سوال یہ ہے کہ دوحہ میں ہونے والے یہ مذاکرات جو پچھلے معاہدے کے دوسرے مرحلے میں منتقلی کے لیے جاری ہیں، ان کا کیا مستقبل ہوگا؟ سیکورٹی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ کے ساتھ مذاکرات بھی جاری رہیں گے، تاہم ایک عارضی جمود کا سامنا ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں اطراف کو مذاکرات کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ مزاحمت مکمل طور پر جنگ بندی اور باقی مراحل پر عمل درآمد چاہتی ہے، جبکہ اسرائیل اپنے قیدیوں کی واپسی، اندرونی مسائل کو کم کرنے اور غزہ کے گردونواح میں امن بحال کرنے کا خواہش مند ہے۔
فلسطینی میڈیا کے ادارے “فیمید” کے ڈائریکٹر ابراہیم المدہون کا کہنا ہے کہ یہ وحشیانہ حملہ حماس کے مذاکراتی موقف پر اثر انداز نہیں ہوگا، کیونکہ حماس جنگ کے خاتمے اور کسی بھی صورت میں حملے کی روک تھام کی خواہاں ہے۔ وہ کسی بھی سنجیدہ پیشکش کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے، مگر اسرائیل وہ فریق ہے جو ان پیشکشوں کو مسترد کرتا ہے۔ حماس اسرائیلی جرائم اور خلاف ورزیوں کی سنگینی سے آگاہ ہے، لیکن وہ ہمارے عوام کو مزید قتل و تباہی سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اب موجودہ معاہدے کی خلاف ورزی کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ کسی بھی معاہدے کی کوئی ضمانت نہیں ہو گی، اس لیے حماس پچھلے معاہدے کو نافذ کرنے پر اصرار کرتی ہے، تاہم اس کے طریقہ کار اور اقدامات میں لچک دکھاتی ہے، بشرطیکہ اس کے بنیادی اصولوں میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ یہی بات حماس کے سیاسی دفتر کے رکن عزت الرشق نے منگل کو اپنے ایک بیان میں کہی، جس میں کہا کہ دشمن جنگ اور تباہی کے ذریعے وہ کامیابیاں حاصل نہیں کر سکے گا جو وہ مذاکرات کے ذریعے حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔
امریکی موقف
امریکی حکومتیں ہمیشہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی حکومت کے حملوں کی سیاسی، فوجی اور سیکورٹی لحاظ سے حمایت کرتی رہی ہیں، لیکن امریکی موقف میں اس وقت ایک نیا موڑ آیا جب ٹرمپ جنوری میں وائٹ ہاؤس پہنچے۔ امریکی صدر نے بار بار کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ غزہ کے باشندوں کو ہمسایہ ممالک میں منتقل کیا جائے اور غزہ کو ایک “ریویرا” میں تبدیل کر دیا جائے، جہاں سرمایہ کاری کے منصوبے لگائے جائیں۔ بلکہ، اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے، انہوں نے غزہ کو خریدنے کی پیشکش بھی کی۔ آج کا امریکی ثالث مکمل طور پر اسرائیل کے حق میں ہے اور حالیہ حملہ واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان واضح طور پر ہم آہنگی کے ساتھ ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کی انتظامیہ نے نتن یاہو کو فوجی آپریشنز کو بڑھانے کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے، تاکہ مزاحمت کے عزم کو توڑا جا سکے۔ امریکہ جانتا ہے کہ یہ حملہ استحکام نہیں لائے گا اور نہ ہی کسی اسرائیلی قیدی کی رہائی کا باعث بنے گا، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اسے اپنے موقف کو بدلنا پڑ سکتا ہے، اور حماس کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرنا پڑ سکتے ہیں۔”

شعیب ملک اور ثانیہ مرزا میں علیحدگی کیوں ہوئی؟ کرکٹر کی بہن کا چونکا دینے والا انکشاف

حماس نے منگل کو اعلان کیا کہ امریکی انتظامیہ کا یہ اعتراف کہ “اسے اسرائیلی حملے کے بارے میں پہلے سے آگاہ کیا گیا تھا” ہمارے عوام کے خلاف نسل کشی کی جنگ میں اس کی شراکت داری کو ثابت کرتا ہے۔ یہ اعتراف ایک بار پھر امریکی حکومت کے اسرائیل کے ساتھ کھلا اور بے شرم اتحاد کو ظاہر کرتا ہے اور ان کے امن قائم رکھنے کے دعوؤں کی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔”
سیاسی امور کے محققین امریکی موقف میں شدت کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، امریکہ نے بیک وقت اسرائیل کو غزہ پر دوبارہ بمباری کرنے کا گرین سگنل دینے کے ساتھ یمن میں حملے کیے ہیں اور ایران کے خلاف سخت بیان بازی کی ہے۔ یہ سب کچھ خطے میں ایک بڑی تباہی اور جغرافیائی تبدیلی کے کے آغاز کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔ ٹرمپ کی انتظامیہ پورے خطے کو مشتعل کر کے ایک خطرناک پالیسی اختیار کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 42 دن تک جاری رہا اور اس ماہ کے آغاز میں ختم ہو گیا تھا، جبکہ اسرائیل نے اگلے مرحلے میں داخل ہونے سے انکار کرتے ہوئے جنگ کے خاتمے کو مسترد کر دیا۔ اس جنگ میں 7 اکتوبر 2023 سے اب تک تقریباً 50 ہزار افراد شہید اور ایک لاکھ 12 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

Related Posts