مسلم دنیا کی پہلی خاتون سربراہِ مملکت بے نظیر بھٹو کی مادرِ وطن کیلئے خدمات

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Interesting aspects of Benazir Bhutto's life that few people know

بے نظیر بھٹو شہید کو مسلم دنیا کی پہلی خاتون سربراہِ مملکت کے طور پر عالمی سطح پر جو پذیرائی حاصل ہوئی، ان کی شہادت کے باوجود بھی کبھی کم نہیں ہوسکی جبکہ اپنے مختلف ادوارِ حکومت میں بے نظیر بھٹو نے مختلف اہم اقدامات اٹھائے۔

ہر سربراہِ مملکت کا کوئی نہ کوئی نظریہ اور فلسفہ ہوتا ہے اور پیپلز پارٹی کا نظریہ روٹی، کپڑا اور مکان تھا جس پر سابق وزیرِ اعظم اور ملک کی سیاسی تاریخ کے اہم کردار ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے پی پی پی عمل پیرا رہی۔ آئیے بے نظیر بھٹو کی 13ویں برسی کے موقعے پر آج ان کے مادرِ وطن پر احسانات کا جائزہ لیتے ہیں۔

بے نظیر بھٹو کی ذاتی زندگی

ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو نے 21 جون 1953ء کے روز ملک کے سب سے بڑے سیاسی خانوادے میں آنکھ کھولی۔ ان کو ابتدائی تعلیم کراچی میں قائم لیڈی جیننگز نرسری اسکول اور پھر کانوینٹ آف جیسز اینڈ میری میں دی گئی۔ بعد ازاں بے نظیر بھٹو 2 برس راولپنڈی میں اور پھر مری میں بھی تعلیم کے حصول کیلئے قیام پذیر رہیں۔

صرف 15 سال کی عمر میں بے نظیر بھٹو نے او لیول کا امتحان پاس کیا جس کے بعد سن 1969ء میں انہیں ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ گریجویشن 1973ء میں مکمل ہوئی جب محترمہ بے نظیر بھٹو 20 برس کی تھیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی سے بے نظیر بھٹو نے معاشیات، سیاسیات اور فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔ ملک کے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو بے نظیر کی زندگی کے مختلف فیصلوں پر اثر انداز رہے جس سے بے نظیر بھٹو مختلف فوائد بھی حاصل کرتی رہیں تاہم بعض اوقات انہیں مشکلات سے بھی سابقہ پڑتا رہا۔ 

سیاست میں قدم

سن 1977ء میں جون کے دوران بے نظیر بھٹو وطن واپس لوٹ چکی تھیں اور وزارتِ خارجہ میں اہم منصب پر تعینات ہونے والی تھیں کہ اسی دوران آمر حکمران جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کردی۔

یہ بے حد مشکل دور تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو جیل بھیج دئیے گئے۔ ملک بھر میں مارشل لاء کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ بے نظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی ہونے کے باعث عتاب کا شکار ہوئیں۔ انہیں نظر بندی سہنا پڑی۔

دو سال بعد یعنی 1979ء میں وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ والد کی وفات کے بعد بے نظیر بھٹو بے حد غمگین تھیں، تاہم والد کے سیاسی قد کاٹھ اور پیپلز پارٹی کا اثر رسوخ قائم رکھنے کیلئے انہیں سیاسی جدوجہد کے میدان میں قدم رکھنا پڑا۔

ایم آر ڈی اتحاد کے تحت بے نظیر بھٹو نے سن 1981ء میں مارشل لاء ختم کرنے کیلئے سیاسی جدوجہد شروع کی جبکہ اس سے قبل ہی انہیں پی پی پی کی چیئرپرسن بنا دیا گیا تھا۔ کچھ عرصے تک بے نظیر بھٹو ملک سے باہر بھی رہیں تاہم سن 1986ء میں جب وہ وطن واپس لوٹیں تو پی پی پی رہنماؤں، قائدین، کارکنان اور عوام کی بڑی تعداد نے بے نظیر بھٹو کا شاندار استقبال کیا۔

آصف علی زرداری سے بے نظیر بھٹو کی شادی 1987ء میں ہوئی۔ اگلے برس ضیاء الحق طیارہ حادثے میں وفات پا گئے۔ اب جمہوریت آزاد تھی اور غلام اسحاق خان ملک کے قائم مقام صدر کی حیثیت سے ایوانِ اقتدار پر براجمان تھے۔

قائم مقام صدر نے ملک بھر میں انتخابات کرائے اور 2 دسمبر 1988ء کو بے نظیر بھٹو کسی بھی مسلم ملک کی پہلی خاتون سربراہ بنیں۔ انہوں نے 35 برس کی عمر میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

واضح رہے کہ 80ء کی دہائی میں پاکستان میں کسی خاتون کا وزیرِ اعظم بننا ایک ایسا سیاسی قدم تھا جسے پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمی برادری اور بالخصوص مسلم ممالک میں خوشگوار حیرت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

اگست 1990ء میں بے نظیر بھٹو پر بدعننوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات عائد کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو ختم کردیا گیا۔ اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں اور اکتوبر 1990ء میں منعقدہ انتخابات کے تحت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف وزیرِ اعظم کی حیثیت سے اقتدار کے ایوان پر براجمان ہوئے۔

وہی الزام جس کا سامنا بے نظیر بھٹو نے کیا تھا نواز شریف پر بھی لگا کہ آپ نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ہے۔ آپ بدعنوان اور کرپٹ ہیں، اس لیے آپ کو حکومت سے برخاست کیا جاتا ہے اور یوں نواز شریف کی حکومت بھی آئی گئی ہو گئی۔

یہ 90ء کی دہائی کا آغاز تھا جہاں میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان وزارتِ عظمیٰ کی مسند گویا میوزیکل چیئر بن کر رہ گئی تھی جس میں بے نظیر بھٹو کا کوئی قصور بظاہر نظر نہیں آتا، تاہم مشترکہ حقیقت یہی تھی کہ دونوں رہنماؤں پر بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد کرکے انہیں بار بار وزارتِ عظمیٰ سے محروم کیا گیا۔

سن 1993ء میں اکتوبر کے دوران بے نظیر بھٹو کو وزیرِ اعظم بنایا گیا اور ابھی 3 برس ہی گزرے تھے کہ پی پی پی رہنما فاروق لغاری نے صدر کی حیثیت سے بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کردیا۔ اِس بار مختلف بات یہ ہوئی کہ بے نظیر بھٹو پر بدعنوانی کے ساتھ ساتھ ماورائے عدالت قتل اور بدامنی کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔

بے نظیر پر لگائے جانے والے الزامات 

پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا سہرا بیک وقت مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پی پی پی کے بانی چئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے سر سجایا جاتا ہے تاہم بے نظیر بھٹو پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ ایٹمی پروگرام رول بیک کرکے وطن کو ایٹمی قوت سے محروم کرنے کے درپے تھیں۔

یہی نہیں، بلکہ بے نظیر بھٹو پر لگائے جانے والے الزامات کی فہرست بے حد طویل ہے جس میں ایک الزام یہ بھی شامل ہے کہ انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف سے ساز باز کرکے امریکا سے غیر قانونی امداد حاصل کی۔

اہم الزامات میں اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانا، بدعنوانی، لوٹ مار، بد دیانتی اور امریکا کے ایماء پر بعض ملکی معاملات پر امریکی مؤقف کی حمایت شامل ہیں۔ یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ بے نظیر بھٹو کے خلاف 2007ء میں مقدمات اس لیے ختم ہوئے کیونکہ انہوں نے سابق آرمی چیف سے مفاہمت کر لی تھی۔

سابق صدر آصف زرداری کے حوالے سے بے نظیر بھٹو پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ ان کے شوہر نے بے نظیر بھٹو دور میں 1 ارب 50 کروڑ ڈالر کے ناجائز اثاثے حاصل کیے اور وہ دنیا کے امیر ترین اشخاص میں شامل ہو گئے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ تمام تر الزامات آج تک ثابت نہیں ہوسکے۔

الزام سے حاصل بجز الزام نہ ہوگا

بدنام جو ہم ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟

مادرِ وطن کیلئے بے نظیر بھٹو کی خدمات

ایک سربراہِ مملکت اور وزیرِ اعظم کی حیثیت سے بے نظیر بھٹو نے بے مثال کام کیے۔ ملک کے آئین سے مردوں کے برابر حقوق دلانے کیلئے خواتین کے خلاف امتیازی قوانین ختم کرنا، وزارتِ انسانی حقوق کا قیام اور دیگر اہم اقدامات شامل ہیں۔

ہزاروں مزدور آمریت کے دور میں زبردستی نوکریوں سے نکال دئیے گئے تھے جن کی بحالی کیلئے بے نظیر بھٹو ایک مسیحا بن کر سامنے آئیں۔ انہوں نے 40 ہزار سے زائد ملازمین کو بحال کردیا۔ ملک کے ہر شہر میں لیبر کالونیز کا قیام، ، مزدوروں کیلئے قانون سازی، ٹریڈ یونینز پر بے جا پابندیوں کا خاتمہ اور ملازمتوں کی تخلیق بے نظیر بھٹو دور کے اہم کارنامے سمجھے جاتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے آئی ایل او کے مطابق بے نظیر بھٹو نے سب سے زیادہ ملازمتیں تخلیق کیں، ملکی معیشت ترقی کی طرف گامزن ہونے لگی اور قومی کمیشن برائے خواتین قائم کیا گیا۔ خواتین کا الگ پولیس اسٹیشن، فرسٹ ویمن بینک اور بے نظیر بھٹو انکم اسپورٹ پروگرام بھی بے نظیر بھٹو کا کارنامہ ہے جو آج تک جاری ہے۔

پہلی بار میڈیا سے سینسر شپ کا خاتمہ بے نظیر بھٹو دور میں کیا گیا، غیر ملکی میڈیا ٹرانسمشن کیلئے آزاد پالیسی بنائی گئی، انسدادِ پولیو مہم شروع ہوئی، پولیو ختم کرنے پر عالمی ادارۂ صحت بھی پاکستان کی تعریف پر مجبور ہوا۔ 1994ء میں پاور پالیسی لائی گئی جس کے تحت لوڈ شیڈنگ بحران کا خاتمہ کیا گیا۔

محترمہ بے نظیرشہید کے دور میں تقریباً 1 ہزار 800 شہر بجلی کی فراہمی سے مستفید ہوئے، 15 لاکھ گیس کنکشنز لگائے گئے جو ایک نیا ریکارڈ تھا۔ پاکستان اسٹیل ملز منافع بخش ادارہ بن گیا۔ پورٹ قاسم کو وسعت دے کر اہم ادارہ بنایا گیا جس کے ثمرات آج تک اٹھائے جا رہے ہیں۔ 

شہادت کے 13 برس مکمل 

کسی بھی پاکستانی شہری کو یہ سوچ کر بے حد دکھ ہوسکتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو 2007ء میں دہشت گردوں نے شہید کردیا جس کے بعد آج تک انہیں انصاف نہ مل سکا۔

بے نظیر بھٹو کی 13ویں برسی کے موقعے پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے اپوزیشن اتحاد بھی گڑھی خدا بخش میں محترمہ کی برسی میں شریک ہے جن میں ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز پیش پیش ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی آپس میں کبھی نہیں بن سکی جو موجودہ دور کے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف اتحاد کرکے حکومت مخالف تحریک چلاتے نظر آتے ہیں جس پر پی ٹی آئی رہنماؤں نے شدید تنقید کی ہے۔

شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاست کے میدان میں حرفِ آخر کچھ نہیں ہوتا۔ اپنی 13ویں برسی کے موقعے پر مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم کو یہ سوال کرنے کا حق ہے کہ آخر انہیں انصاف آج تک کیوں نہیں مل سکا؟

ان کی شہادت کے بعد مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سمیت اقتدار کی کمان ہر سیاسی پارٹی کے ہاتھ میں آئی، تاہم ملک کا نظامِ انصاف کسی صورت بی بی شہید کے قاتلوں کو گرفتار کرتا نظر نہیں آتا۔ آج بی بی شہید کی برسی کے موقعے پر ملک بھر کی پسی ہوئی خواتین، مزدور اور وہ سب لوگ جنہیں بے نظیر کی حکومت نے فائدہ پہنچایا، انہیں یاد کرکے ان کی روح کے ایصالِ ثواب کیلئے دعائیں کر رہے ہیں۔ 

Related Posts