سینیٹ کے الیکشن پر امن طریقے سے انجام پا چکے ہیں اورصاف شفاف الیکشن ہونے کی وجہ سے سید یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوچکے ہیں، سینیٹ الیکشن کے بعد حکومت بہت پریشان ہے اور وزیراعظم عمران خان کا ووٹ بھی مسترد ہو چکا ہے ،شہریار آفریدی نے ڈبل گیم کی دیگر وزراء اور اتحادیوں نے بھی وقت پر دھوکا دیا ،مسلم لیگ ق نے واضح طور پر پی ٹی آئی کو سینیٹ الیکشن میں ووٹ نہیں دیا ۔
تمام تر حالات پر نظر رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے ایوان بالا سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور چند دنوں میں وفاقی کابینہ میں بہت بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا امکان ہے ،وزیراعظم عمران خان اس وقت سخت مشکل میں پھنس چکے ہیں ،سینیٹ الیکشن سے ایک روز قبل ناراض اراکین پارلیمنٹ کو مناتے رہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور تمام ناراض اراکین نے برملا کہا کہ انہیں نظرانداز کیا جارہا ہے ان کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈز نہیں دیے گئے اور نہ ہی وزیراعظم عمران خان ان اراکین سے ملاقات کرتے ہیں ۔
چند منظور نظر وزراء کے چنگل میں وزیراعظم عمران خان پھنسے ہوئے ہیں ،اگر وزیراعظم عمران خان ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیتے ہیں تو 341 کے ایوان سے ان کو 171 ووٹوں کی ضرورت ہو گی لیکن موجودہ صورتحال میں یہ ناممکن ہے ،آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں عمران خان اعتماد کا ووٹ لیں گے جس میں عمران خان کامیاب ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے عمران خان کا جانا ٹھہر گیا ہے ،عمران خان کی کابینہ کے لوگوں کو پتہ تھا کہ وزیراعظم عمران خان ان اب جا رہے ہیں تو انہوں نے اپنے پتے اپنے حساب سے کھیلے۔
سینیٹ الیکشن میں شکست کے بعد وزیراعظم عمران خان اور ہمنواؤں نے سر جو ڑ لیے ہیں اور وفاقی وزراء کے ساتھ مشاورت شروع کر دی ہے، عمران خان حفیظ شیخ کے ہارنے کے حوالے سے انتہائی پریشان ہیں ، وزیراعظم کو کسی بھی صورت میں ہار تسلیم نہیں ہو رہی لیکن بابر اعوان نے وزیر اعظم کو آگاہ کر دیا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے رزلٹ کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
سینیٹ الیکشن کے بعد پی ڈی ایم مائنس ون کے لئے مزید متحرک ہو گئی ہے اوردلچسپ بات تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم تقریباً اپنے پلان میں کامیاب ہو چکی ہے، آنے والے دنوں میں سیاست کے میدان میں کھیلے جانے والا گیم بہت دلچسپ ہو گا، پنجاب میں مسلم لیگ ق جو کہ موجودہ حکومت کی اتحادی ہے وہ وزیراعظم عمران خان سے سخت ناراض ہے اسی لیے انہوں نے سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دیا ،مسلم لیگ ن کے ساتھ مسلم لیگ ق کے تمام تر سیاسی معاملات طے ہو چکے ہیں ۔
پنجاب کے آنے والے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی ہوں گے جبکہ پی ڈی ایم نے تمام تر جدوجہد میں شہباز شریف کو بالکل سائیڈ پر رکھا ،دو ماہ قبل اسٹیبلشمنٹ سے یوکے میں کئے گئے مذاکرات رنگ لے آئے ہیں جن کا نتیجہ ضمنی الیکشن اور سینیٹ الیکشن میں واضح طور پر نظر آیا ،مائنس ون کی صورت میں متوقع امیدواروں میں میاں محمد سومرو ،شہباز شریف اور مریم نواز کے نام شامل ہیں جبکہ اس دوڑ میں شہباز شریف سب سے زیادہ مضبوط اور ہاٹ فیورٹ امیدوار ہیں اور وزیراعظم پاکستان ہوں گے۔
پی ڈی ایم نے یہ الیکشن صرف اور صرف وزیراعظم عمران خان کے خلاف لڑا ،حیرت کی بات ہے کہ جس وزیراعظم کو ووٹ ڈالنے کا طریقہ نہیں آتا وہ ملک کو کیسے چلائیں گے اس وقت ملک شدید مالی بحران میں ہے اور عوام مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں، کوئی میگا پروجیکٹ نہیں لگایا گیا ملکی معیشت تباہ ہوچکی ہے،بے روزگاری بڑھ رہی ہے ،یہ تمام چیزیں ہیں جن کی وجہ سے اب وزیراعظم عمران خان کا گھر جانا ٹھہر گیا ہے اور مائنس ون کی صورت میں آنے والے وزیر اعظم کے ناموں میں سب سے زیادہ فیورٹ نام شہباز شریف کا ہے گو کہ اس دوڑ میں اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر میاں محمد سومرو اور مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز بھی شامل ہیں۔
گزشتہ رات پی ڈی ایم کی قیادت نے راولپنڈی میں پنڈی بوائز سے ملاقات کی اور مقتدرقوت نے پی ڈی ایم کوحکومت بنانے کی پیش کش کی اور بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانے بھی پیشکش کی ،پی ڈی ایم نے یہ آفر یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ حکومت دیں تو پانچ سال کے لیے دیں اس سے کم وقت کے لیے حکومت نہیں چاہیے کیونکہ اس وقت مہنگائی عروج پر ہے معیشت تباہ ہوچکی ہے اور عوام کا برا حال ہے ہم ابھی تک گرے لسٹ میں شامل ہیں ،پنڈی بوائز سے خفیہ ملاقات کے دوران آئی ایس آئی کے سربراہ بھی موجود تھے ۔