نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے توشہ خانہ سے ملنے والے تحائف قواعد کے خلاف 14کروڑروپے میں دبئی میں فروخت کیے۔ قیمتی تحائف میں ڈائمنڈ جیولری ، بریسلٹ، گھڑیاں اور سیٹ شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کے مخالفین قیمتی تحائف کی فروخت پر ماضی میں بھی سوال اٹھاتے رہے ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد توشہ خانہ کا معاملہ انتہائی شدت اختیار کرگیا ہے۔ موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ عمران خان نے قیمتی تحائف بیچ دیئے ہیں جبکہ پی ٹی آئی نے الزامات کی تردید نہیں کی بلکہ تحائف بیچنے کو اپنا استحقاق قرار دیا ہے۔
یہاں اہم بات تو یہ ہے کہ عمران خان نے سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیراعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کیخلاف یہ مقدمہ قائم کرایا تھا کہ انہوں نے توشہ خانے سے مہنگے تحفے اور گاڑیاں اپنے پاس رکھ لیں، جبکہ عمران خان کے ساتھی برملا تحائف بیچنے کا اعتراف کرکے ملک کیلئے مزید بدنامی کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔
قواعد و ضوابط کے مطابق دنیا کے کسی لیڈر کی طرف سے سرکاری عہدیدار کو ملنے والا تحفہ توشہ خانے میں جمع کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی عہدیدار یہ تحفہ اپنے پاس رکھنا چاہے تو وہ ایک مخصوص رقم ادا کرکے اپنے پاس رکھ سکتا ہے، جو ستمبر 2018ء میں عمران خان کے وقت میں 20 فیصد تھی اور اس طرح انہوں نے مذکورہ بالا تحائف اپنے پاس رکھ لیے۔
قواعد میں دسمبر 2018 میں تبدیلی کی گئی اور یہ حصہ بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا جس کی ادائیگی پر ہی تحائف اپنے پاس رکھے جا سکتے ہیں۔ جو تحائف اپنے پاس نہ رکھنے ہوں انہیں توشہ خانے میں جمع کر دیا جاتا ہے یا پھر ان کی نیلامی ہوتی ہے اور اس طرح نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم سرکاری خزانے میں جمع ہوتی ہےتاہم قدیم اشیاء کو نیلام کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ انہیں عوامی طور پر نمائش کیلئے رکھا جاتا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت وزیراعظم عمران خان کو گزشتہ تین سالوں میں ملنے والے تحائف ظاہر کرنے سے گریزاں رہی۔ سابق حکومت کا کہنا تھاکہ تحائف کی تفصیلات سامنے لانے سے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں تاہم اقتدار ختم ہونے کے بعد توشہ خانہ اسکینڈل میں بھی نئے نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں کہ عمران خان نے 15 مہنگے تحائف اپنے پاس رکھنے کیلئے 14 کروڑ روپے مالیت کے تحفوں کے عوض صرف 3 کروڑ 80 لاکھ روپے ادا کیے جبکہ دیگر تحائف کوئی رقم ادا کیے بغیر ہی رکھ لیے۔
پاکستان کی سیاست کا درجہ حرارت ان دنوں نقطہ عروج کو پار کرچکا ہے، سیاسی مخالفین بیان بازی میں ہر قسم کی احتیاط کو بالائے طاق رکھ چکے ہیں اور ایسے میں نہ صرف اندرون ملک اور بیرون ممالک میں بھی پاکستان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔
یہاں بات تحائف رکھنے کی نہیں بلکہ ملک کی بدنامی کی ہے، تحائف دینے والے ممالک جب اس قسم کی باتیں سنتے ہیں تو ان کے نزدیک کسی شخص کا نہیں بلکہ پورے ملک کا تشخص خراب ہوتا ہے اور آنیوالے حکمرانوں اور سفراء کو غیرملکی رہنماؤں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لئے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کیلئے ملک کی عزت اور وقار کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔