حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ ترین پیغمبر اور سخاوت کا بے مثل بحرِ بے کراں ہیں اور یہ سخاوت نہ صرف اخلاقی و معاشرتی اعتبار سے دکھائی دیتی ہے، بلکہ روحانی اعتبار سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ نبئ آخر الزمان ﷺ کی شخصیت کی نمایاں خوبیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اگر کوئی سائل ہاتھ پھیلا دے تو آپ ﷺ کبھی اسے خالی نہ جانے دیتے تھے۔ سخی ہو تو ایسا اور سخاوت ہو تو ایسی ہی باکمال اور لازوال ہونی چاہئے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک خاتون نے بھوک اور افلاس کی حالت میں خدا کے پیارے اور آخری نبی ﷺ کے حجرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اتفاق سے رسولِ خدا ﷺ اس وقت گھر پر نہیں تھے اور رسول اللہ ﷺ کی زوجۂ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دروازہ کھولا۔ مذکورہ خاتون اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ دستِ سوال دراز کرتی نظر آئی۔ خاتون نے ام المؤمنین سے پوچھا کہ اگر کچھ کھانے کو موجود ہے تو عنایت فرمائیں جبکہ نبئ اکرم ﷺ کے گھر میں ہفتوں سے کھانا پکانے کیلئے چولہا تک نہیں جلایا گیا تھا اور کھانے کیلئے گھر میں صرف 3 کھجوریں موجود تھیں۔
رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر من و عن عمل کرنے والی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ نے پھر بھی انکار نہ فرمایا اور وہ 3 کھجوریں بھی اٹھا کر سوالی خاتون کو دے دیں جس نے 2 کھجوریں اپنی بیٹیوں کو دے دیں۔ بچیاں اتنی بھوکی تھیں کہ جلدی سے کھجوریں کھا لیں اور آخری کھجور کیلئے بھی نظریں اپنی والدہ پر جما دیں۔ ایک ماں ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے خاتون نے آخری کھجور کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور وہ بھی اپنی بیٹیوں میں بانٹ دی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خاتون کو بھوکے پیٹ رہنا پڑا۔ سوال کرنےوالی ماں کے اِس فعل میں اتنی تاثیر تھی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں اور تمام تر واقعہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کو گھر آنے پر کہہ سنایا۔ نبئ مکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس (سوال کرنے والی خاتون) کیلئے جنت لکھ دی گئی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو وہ تربیت اور اعتماد کس نے دیا کہ گھر میں پڑی ہوئی کھانے کی آخری چیز تک اٹھا کر سوالی کو عنایت کردیں اور اس کیلئے اپنے شوہر (یعنی رسولِ اکرم ﷺ) سے اجازت تک طلب نہ کریں؟ رسول اللہ ﷺ کی سخاوت نے ہی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہ ایمان کی طاقت عنایت کی کہ سخاوت کی آخری حد سے بھی گزر جاؤ کیونکہ بدلے میں آپ کو عنایت فرمانے والی اللہ کی ذات سخاوت میں ہر ایک سےبڑی ہے۔جو بھی دیا جائے گا، اللہ اس سے کہیں بڑھ کر اجرِ عظیم سے نوازے گا اور یہی یقین تھا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمل میں ہمیں نظر آتا ہے۔
ایک اور حدیث میں بیان ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ایک قربان کی گئی بکری تحفے میں دی گئی۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ہدایت کی کہ گوشت کو ٹکڑوں میں تقسیم کریں تاکہ ضرورت مندوں اور ایمان والوں میں تقسیم کیاجائے۔ اپنے گھر کے باہر کھڑے ہو کر رسول اللہ ﷺ نے سائلین میں گوشت تقسیم کرنے کا عمل جاری رکھا اور مسلسل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے رہے کہ کتنا گوشت بچا ہے۔ آخر میں رسول اللہ ﷺ نے جب استفسار فرمایا تو ام المؤمنین نے آگاہ کیا کہ سارا گوشت تقسیم ہوگیا اور اب کندھے کا ایک چھوٹا سا حصہ باقی رہ گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جواباً فرمایا کہ اے عائشہ ! تم نے سمجھنے میں غلطی کی۔ گوشت کا جتنا حصہ ہم نے تقسیم کردیا، وہ ہمارے ساتھ ہے ، سوائے اس کندھے کے (چھوٹے سے) حصے کے، جو ہم استعمال کریں گے۔
خدائے بزرگ و برتر پر رسول اکرم ﷺ کا غیر متزلزل ایمان اور بھروسہ وہ طاقت ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کی شخصیت میں سخاوت کوٹ کوٹ کر بھردی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ پاک کے ذریعے یہ ہدایت فرماتا ہے کہ جو شخص ایک نیکی کرے گا، اسے اللہ تعالیٰ 10 گنا اجر عطا فرمائے گا اور یہ انعام صرف روحانی نہیں ہوگا بلکہ جو سرمایہ کاری آپ کریں، اس سے حاصل ہونے والا منافع بھی آپ محسوس کریں گے۔ آپ ایک روپیہ خیرات کریں تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں کم از کم 10 گنا اور زیادہ سے زیادہ 700مرتبہ بھی اجر عطا فرماتا ہے تاہم اس کے اجر کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ یہ صرف ہمیں سمجھانے کیلئے فرمایا گیا۔
اللہ اور اس کا آخری رسول ﷺ ہمیں آج بھی حدیث اور قرآن کے ذریعے یہ سمجھا رہے ہیں کہ ہمیں سخاوت سے بھرپور زندگی جینا ہوگی جس کے بدلےمیں اللہ تعالیٰ کا رحم و کرم ہم پربادل بن کر برسنے لگے گا۔ خالقِ کائنات کی راہ میں اخراجات کا صلہ ربِ دو جہاں خود عطا فرماتا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی سوالیوں کو دینے اور سخاوت کی تلقین فرمائی اور تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب صحابہ کرام نے اپنی مالی حیثیت سے بڑھ کر سخاوت کا مظاہرہ کیا۔
صحابہ کرام کی مثال سامنے رکھیں تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ایک بار قرآنِ مجید کی یہ آیۂ مبارکہ سنی کہ تم اس وقت تک نیکی (کی معراج) حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ تم (اللہ کی راہ میں) وہ خرچ نہ کردو جس سے تم (سب سے زیادہ) محبت کرتے ہو۔ (سورۂ آلِ عمران، آیت نمبر 92)۔ یہ سننا تھا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جاپہنچے اور اپنا پسندیدہ ترین باغ برھا اللہ کی راہ میں ایثارکرتے ہوئے پیش کردیا اور اِس عمل کو رسولِ خدا ﷺ نے سراہا۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بہت خوشی کا اظہا ر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: کہ (اللہ کی راہ میں) کیا ہی خوب تحفہ ہے۔ آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ اے ابوطلحہ! اگر تم اس باغ کو اپنے ہی عزیزواقارب میں تقسیم کردو تو یہ اس کا بہترین مصرف ہوگا، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی ﷺ کی یہ بات سن کر واپس لوٹ گئے اور جیسا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا، وہی کیا۔
ہمیں رسول اللہ ﷺ کی اِس نصیحت سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ہماری سخاوت صرف اجنبی اور ضرورت مند افراد کیلئے نہیں بلکہ اپنے اہلِ خانہ، رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کیلئے بھی ہونی چاہئے۔ رسول اللہ ﷺکی ایک حدیث کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی اہلیہ کے منہ میں کھانے کا لقمہ ڈالے تو وہ بھی اللہ سے اجر و ثواب کا مستحق ہے کیونکہ اسے بھی صدقہ سمجھا جاتا ہے، لہٰذا سخاوت انہی افراد سے شروع ہوتی ہے جن کے ساتھ آپ رہتے ہیں یا جو آپ کے اردگرد پائے جاتے ہوں جن میں ہمسایوں کو ترجیحاً اولیت حاصل ہے۔
کبھی کبھی ہم سخاوت سے اپنا ہاتھ یہ سوچتے ہوئے روک لیتے ہیں کہ اس سے ہم خوشحال ہوجائیں گے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ زندگی میں اگر بہترین خوشحالی چاہئے تو دینا سیکھئے جس کیلئے مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ جن لوگوں میں سخاوت کا جذبہ پایا جاتا ہے، وہ سب سے زیادہ مطمئن اور خوشحال ہوتے ہیں اور ان کا معیارِ زندگی مادی کامیابی اور کثرتِ مال و جاہ نہ ہونے کے باوجود بے حد بلند ہوتا ہے۔
حدیثِ نبوی ﷺ کے مطابق دنیوی مال اگر کم دیا گیا ہو تو شاید یہ آپ کیلئے زیادہ دئیے جانے سے کہیں بہتر ہوکیونکہ بعض اوقات زیادہ مال کے باعث انسان اللہ تعالیٰ کے احکامات اور فرائض سے غافل ہوجاتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ شاید غربت تمہارے لیے دوا ثابت ہو۔ اگر ہم دولت مند ہوتے تو شاید اللہ کو بھول بیٹھتے اور اس پر توکل کرنا چھوڑ دیتے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نےہم میں سے کچھ لوگوں کو امیراور دولت مند پیدا کیا ہےکیونکہ اگر ایسے لوگ غریب پیدا ہوتے تو شاید اللہ سےمایوس ہوجاتے اور اپنا ایمان کھو بیٹھتے۔
ایک مرتبہ امہات المؤمنین نے رسولِ اکرم ﷺ سے سوال کیا کہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد جنت میں ہم میں سے کون سی خاتون نبی ﷺ کی سب سے پہلے زیارت کی اہل ہوگی؟ نبئ آخر الزمان ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (مجھ سے ) وہ (خاتون سب سے پہلے ملاقات کرے گی) جس کے باز و سب سے لمبے ہوں (یعنی وہ سخی ہو) اور تمام امہات المؤمنین نے اپنے بازوؤں کی پیمائش شروع کردی۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جنت میں سب سے پہلے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ملاقات ہوگی جبکہ جسمانی طور پر آپ رضی اللہ عنہا کے بازو سب سے لمبے نہیں تھے۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کے کچھ روز بعد مدینہ کے لوگ بھوکے رہنے لگے کیونکہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ اپنی دولت سے غرباء کی بے حد مدد فرمایا کرتی تھیں اور جب ان کی وفات کے بعد بھوک بڑھی تولوگوں کوپتہ چلا کہ وہ کتنے غرباء کی مدد کیا کرتی تھیں۔ آئیے ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہمارے ہاتھوں کو دینے والا اور دل کو سخی بنا دے اورہمیں بخل سے دور رکھے۔ آمین۔