اعتراضات نظر انداز، بھارت نے جی 20 اجلاس سری نگر میں کیوں طلب کیا؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نئی دہلی: بھارت نے چین اور پاکستان کے اعتراضات نظر انداز کرتے ہوئے جی 20 اجلاس سری نگر میں طلب کر لیا ہے جس سے خطے میں  کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔

تفصیلات کے مطابق بھارت کی میزبانی میں جی 20 اجلاس 22 سے 24 مئی کے دوران مقبوضہ کشمیر کے دارالخلافہ سری نگر میں ہوگا۔ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ بھارت کے سری نگر میں جی 20 اجلاس منعقد کرنے پر پاکستان اور چین نے اعتراض کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:

مصنوعی ذہانت کس طرح دنیا کو برباد کرسکتی ہے؟ حقائق سامنے آگئے

سری نگر میں اجلاس متنازعہ کیوں؟

یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ سری نگر میں اجلاس پر پاکستان اور چین کو اعتراض کیوں ہے؟ تو سری نگر دراصل ایک متنازعہ علاقہ اور وادئ جموں و کشمیر کا اہم حصہ بلکہ دارالحکومت ہے جسے بھارت اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔

اگر جی 20 ممالک اس اجلاس میں شرکت کرتے ہیں تو بھارت کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع ملے گا کہ جموں و کشمیر کوئی متنازعہ علاقہ نہیں بلکہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہی ہے جس پر پاکستان کو سخت اعتراض ہے۔

جی 20 کیا ہے؟

اگر ہم جی 20 کا جائزہ لیں تو اس میں ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، کوریا، روس، سعودی عرب اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔

عالمی تنظیم جی 20 میں ترکی، برطانیہ، امریکا اور یورپی یونین کے 28 رکن ممالک بھی شامل ہیں، جس سے اس عالمی اقتصادی فورم میں شامل ممالک کی تعداد 40 سے بھی زائد ہوجاتی ہے۔

جدوجہدِ آزادئ کشمیر

جب 1947ء میں پاکستان اور بھارت نے  الگ الگ آزادی حاصل کی تو بھارت نے بد ترین جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ یوں گزشتہ 7 دہائیوں سے مظلوم کشمیری اپنے حقِ خود ارادیت کیلئے بھارتی حکومت سے برسر پیکار ہیں۔

پاکستان نے کشمیریوں کی ہر قسم کی سفارتی و سیاسی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہوا ہے جبکہ اگست 2019ء میں بھارت نے کشمیر کی آزاد ریاستی حیثیت بھی ختم کرکے ظلم کے نئے باب کا آغاز کردیا۔

بھارت کی نریندر مودی حکومت نے کشمیریوں کیلئے عرصۂ حیات تنگ کردیا۔ عوام پر ظالمانہ جبر و تشدد، قتل و غارت اور ریاستی دہشت گردی مظلوم کشمیریوں کیلئے روزانہ کا معمول بن چکی ہے۔

پاکستان کیا کرسکتا ہے؟

دراصل جی 20 ممالک میں پاکستان کے بہت قریبی دوست اور مسلمان ممالک بھی شامل ہیں جنہیں اخلاقی طور پر بھارت کی میزبانی میں سری نگر میں ہونے والے اجلاس کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔

تاہم ان ممالک کی جانب سے اجلاس کی مخالفت کا سامنے نہ آنا پاکستان کی جانب سے سفارتی محاذ پر مزید کاوشوں کی ضرورت کو عیاں کرتا ہے۔ یہ معاملہ پاکستانی حکومت کو ہر فورم پر اٹھانا چاہئے۔ 

دو بہترین فورمز

جن دو سفارتی فورمز پر پاکستان جی 20 اجلاس کا معاملہ اٹھا سکتا ہے ان میں اقوامِ متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) شامل ہیں جہاں بھارت کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جاسکتی ہے۔

خطے میں کشیدگی کا خدشہ

وقت آگیا ہے کہ پاکستان جی 20 اجلاس کے سری نگر میں انعقاد کے باعث خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے متعلق بھی عالمی برادری کو بتائے۔ بھارت کے سری نگر کو اپنے رقبے میں شامل کرنے کے مذموم عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

اس لیے جی 20 اجلاس کے سری نگر میں انعقاد سے قبل ہی پاکستان کی جانب سے سفارتی کاوشوں کا آغاز ہوجانا چاہئے تھا، تاہم پاکستان پہلے ہی سیاسی بحران کا شکار ہے اور اس دوران ملکی سیاستدانوں کو عالمی جی 20 اجلاس کی جانب دیکھنے کی فرصت نہیں مل سکی جس سے کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے۔

Related Posts