حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد لوگوں کو ایندھن کی کمی کے مسائل کا سامنا ہے، گزشتہ کئی روز سے ملک میں ایک غیر معمولی صورتحال دیکھی جارہی ہے جس کے نتیجے میں ملک بھر کے فیول اسٹیشنوں پر پیٹرول اور ڈیزل کی قلت پیدا ہوگئی ہے جس سے لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
تیل کی طاقتور کمپنیوں کو پیٹرولیم مصنوعات کی اس مصنوعی قلت پیدا کرنے کا موردالزام ٹھہرایاجارہا ہے۔ حکومت آئل کارٹل پر نظر رکھنے میں ناکام رہی جو قلت پیدا کرکے قیمتوں میں اضافے کی کوشش کر رہی ہے اور اس نے اپنی مصنوعات کی فروخت بند کردی ہے۔
پیٹرولیم ڈویژن کاکہنا ہے کہ ملک میں وافر مقدار میں تیل موجود ہے جو اگلے دو ہفتوں کی طلب کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے۔ پیٹرولیم ڈویژن نے دھمکی دی ہے کہ اوایم سیزاور ڈیلروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔
اوگرا ، سی سی پی اور صوبائی حکومت جیسے دیگر ادارے بھی تیل کی مصنوعی قلت کیخلاف کارروائی کر رہے ہیں۔
آئل کمپنیوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے جو ایسے غیر مسابقتی طریقوں کا سہارا لے رہی ہیں جو لوگوں کی زندگیوں پر منفی اثر ڈال رہی ہیں۔ اس مصنوعی قلت کا الزام چھ او ایم سی پر لگایا جارہا ہے حالانکہ ان میں سے بیشتر کے پاس کافی ذخیرہ ہے اور امید ہے کہ ایک دو دن میں اضافی اسٹاک مل جائے گا۔
لوگوں نے ایندھن کی قلت کے خوف سے گاڑیوں میں وافر پیٹرول بھروانا شروع کردیا ہے اور پیٹرول اسٹیشنوں پر لمبی قطاریں دکھائی دیتی ہیں۔
یہ ایسے وقت میں غیر معمولی بات ہے جب پوری دنیا میں پیٹرولیم مصنوعات کی طلب میں کمی آرہی ہے۔ دنیا بھر میں سرگرمیاں معطل ہونے کی وجہ سے تیل کی عالمی صنعت کو نقصان اٹھانا پڑا ہے کیونکہ معیشتیں عملی طور پر بند ہوچکی ہیں اور ایئر لائنز کے آپریشن بھی معطل ہیں ۔
حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اب سستا ایندھن ہے اور جنوبی ایشیاء میں سب سے کم نرخ پر دستیاب ہے، اگرچہ حکومت کی جانب سے گزشتہ مہینوں کے دوران پیٹرولیم کی قیمتوں میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔
پیٹرولیم سیکٹر قیمتیں بڑھانے میں توتندہی سے کام لیتے ہیں لیکن ضرورت پڑنے پر کمی لانے میں ہمیشہ تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ایندھن کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو نہیں مل رہا، تیل کمپنیاں اب حکومت پر قیمتوں پر نظر ثانی کے لئے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا تیل کی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی یا حکومت آئل کمپنیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیگی۔