ٹوکیو سے اسلام آباد تک

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 خدا کا شکر ہے کہ ٹوکیو اولمپکس ختم ہوئے۔ 16دن دنیا نے تو مزے کیے مگر ہمارے لیے ہر دن شرمندگی کے امتحان کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ طلحہ طالب اور ارشد ندیم نے چند لمحے خوشیوں کے دیے مگر آخر میں وہ بھی خاک ہوئیں۔ ایک کے بازو نے کام نہیں کیا اور دوسرے کے کندھوں نے۔

ہم جو بھی کہہ رہے ہیں ایسے مقابلوں میں کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ آپ مقامی ہیرو ہیں یا نہیں، پہلے تین نمبر ہی اہم ہوتے ہیں۔ ہم دونوں مقابلوں میں پانچویں نمبر پر تھے۔ یہ بیانیہ بے سود ہے کہ دونوں نے کوشش خوب کی۔ اولمپکس کوشش کا نام نہیں ہے جیت اور ہار کا کھیل ہے۔

دو ہفتوں کے لگ بھگ وقت میں 33کھیلیں کھیلی گئیں۔ 1043کے قریب میڈل تقسیم ہوئے۔ 82ممالک کسی نہ کسی کھیل میں جیت کے اسٹیج پر کھڑے ہوئے۔ ہمارے نصیب میں ایک بھی نہیں آیا۔ نہ ترانہ بجا نہ جھنڈا لہرایا۔ جیسے گئے تھے ویسے ہی واپس آ گئے۔

پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے سربراہ جنرل ریٹائرڈ عارف بہرحال اپنے عہدے پر مضبوطی سے ابھی بھی قائم ہیں۔ 17سالہ دور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اب فرما رہے ہیں وسائل نہیں تھے۔ اگر وسائل نہ ہوتے تو وہ یہ آرام دہ نوکری کیوں کر رہے ہوتے۔

مگر شاید وہ یہ کہہ رہے ہیں میرے لیے تو وسائل بہت ہیں مگر کھلاڑیوں کے لیے نہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر وہ 17سال سے کیا کر رہے ہیں؟ مگر اس کا جواب وہ کیوں کر دیں گے۔ ان سے کوئی بات کر کے تو دیکھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سوا لاکھ کے ہیں۔

مگر ٹوکیو اولمپکس کو آپ سیاسی استعارے کے طور پر بھی لے سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہر دو چار سال بعد آپ کو یہی بتایا جاتا ہے کہ اگر ایک عہدے پر طویل مدت کے لیے کسی حاضر سروس یا ریٹائرڈ شخص کو بیٹھا دیا جائے تو نظام درست ہو سکتا ہے۔

اب تو خیر ریٹائرڈ کی باری ہی نہیں آتی۔ حاضر سروس ہی ہر جگہ موجود ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ سیاستدان نکمے ہیں ناکارہ لوگوں کو سامنے لا کر اداروں کو تباہ کرتے ہیں۔ ان نیچ لوگوں سے جان چھڑوائی جائے تو ملک عقابی بلندیوں پر جا سکتا ہے۔

ایوب خان، ضیاء الحق، پرویز مشرف اور اب عمران خان قوم کو یہی بتلاتے رہے۔ اس کے ساتھ ضرور پاکستان کے شاندار ٹیلنٹ اور وسائل کا ذکر بھی ضرور کیا جاتا ہے۔ زمین میں چھپے خزانے، آسمان سے برستے تحفے سوچ کی رنگینیوں میں اضافہ کرنے کے لیے بطور مثال موضوع بنائے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے تو پاکستان میں 4سے6 اور 6سے بڑھا کر موسموں کی تعداد 12بتا دی۔

بالکل ویسے ہی جیسے ایک مرتبہ اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں شیخ رشید کی طرف سے دیے گئے افطار کے موقعے پر جنرل پرویز مشرف نے کشمیر کو 7حصوں میں بانٹ دیا تھا۔

باور یہ کروایا جاتاہے کہ ملک کا اصل مسئلہ اچھے لوگوں کا عہدوں پر موجود نہ ہونا ہے۔ اچھے لوگوں سے مراد ریٹائرڈ، حاضر سروس یا ان سے متاثرہ تمام افراد۔ اولمپکس میں ہماری کارکردگی[یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے بھی تکلیف محسوس ہو رہی ہے] اس تمام سیاسی فلسفے کی نفی کرتی ہے۔

جنرل ریٹائرڈ عارف صاحب کے شاندار کیریئر کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا۔ جب سیاہ اور سفید سب کا مالک ایک ہی تھا۔ جومانگتے وہ مل جاتا۔ جو تربیت گاہ بنوانا چاہتے وہ بن جاتی اور نہیں تو جارج ڈبلیو بش خصوصی طیارے کے ذریعے امریکی ٹرینر بھجوا دیتا۔ اس وقت امریکہ کو ہماری اتنی ہی ضرورت تھی۔ آج کل تو بہرحال اقوام متحدہ میں میٹنگز میں بھی نہیں بلایا جاتا۔ مگر کچھ نہیں ہوا، میڈل کا خانہ اس وقت بھی خالی تھا اور آج بھی۔

درمیان میں دو ادوار ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے تھے۔ چلو مان لیتے ہیں کہ یہ گناہ گاروں کا ٹولہ تھا اور ان کے کیے ہوئے برے کام ہمارے ایتھلیٹس کے گلے پڑے۔ اس کے بعد نیکی کے فرشتے پاکستان کے حکمران بنے جن کے سربراہ کے پاس ایک نہیں، دو نہیں کھیلوں میں 3پی ایچ ڈیز ہیں۔ نتیجہ آج بھی صفر ہی ہے۔

پس ثابت یہ ہوا کہ نظام کی درستگی اور ملک کی عزت کا تعلق افراد سے نہیں پلاننگ اور مخلص کوشش سے ہے۔ جن کی زندگی کا مقصد اپنی کرسی کو بچانا ہو وہ بیسیوں سال بھی گزار لیں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ہاں وہ خود مزے کر لیں گے، وسائل سے فائدہ اٹھا لیں گے، آنے والی نسلوں کی عیش کا بندوبست کر لیں گے لیکن ملک کے لیے نتیجہ صفر ہی نکلے گا اور جب ان سے باادب ہو کر سوال پوچھا جائے گا تو ڈانٹ کر یہ کہہ دیں گے کہ میرے بس میں جو تھا وہ میں نے کر دیا، اس سے آگے میں جواب نہیں دوں گا۔ ٹوکیو کے اولمپکس، اسلام آباد کی سیاست کے لیے ایک سبق ہے، اگر کوئی سیکھنا چاہے تو۔

Related Posts