پرنس کریم آغا خان اسماعیلی مسلم جماعت کے انچاسویں امام ایک ایسا تابندہ اور چمکتا دمکتا ستارہ ہیں جو انسانیت کے افق پر ہمیشہ درخشاں، زندہ و تابندہ رہے گا، جن کا تعلق خاندان کی اس عظیم روحانی روایت سے ہے جو خدمتِ انسانی، فلاح و بہبود، تعلیم اور عالمی ترقی کی سنہری علامت بن چکی ہے۔
ان کے عظیم المرتبت دادا آغا خان سوم برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، اور تعلیمی ترقی کے بانیوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں اور بلاشبہ آغا خان خاندان نے ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ ان کو رہتی دنیا تک ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا اور ان کی بے لوث خدمت اور عظیم کامیابیوں کی داستان ہمیشہ رقم کی جاتی رہے گی۔
آغا خان سوم، جو 1877 میں پیدا ہوئے، برصغیر کے مسلمانوں کے لیے روشنی کی ایک ایسی کرن ثابت ہوئے جس نے غلامی کے اندھیروں میں امید کی شمع روشن کی۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور اپنی حکمت و تدبر سے برطانوی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں مسلمانوں کے سیاسی، تعلیمی اور معاشرتی حقوق کا بڑی خوبصورتی اور کامیابی کے ساتھ دفاع کیا۔ ان کی شخصیت سیاسی بصیرت، شاندار سفارتکاری، اور علمی عروج کا ایک ایسا حسین امتزاج تھی جس کی بدولت وہ نہ صرف ایک زبردست رہنما بلکہ ایک اعلیٰ درجہ کے مفکر، مدبر، اور مصلح بھی ثابت ہوئے۔
آغا خان سوم کا ویژن مسلمانوں کی محض سیاسی خودمختاری تک محدود نہ تھا بلکہ وہ ان کی تعلیمی ترقی کے بھی زبردست داعی رہے جس کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ترقی میں ناقابلِ فراموش کردار اور تعلیمی اداروں کے قیام میں ان کی محنت آج بھی مسلم دنیا کے لیے کسی مشعلِ راہ سے کم نہیں۔ آغا خان سوم کی دور اندیشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اسماعیلی جماعت کو گوادر اور ہنزہ جیسے علاقوں میں جائیدادیں بیچنے سے روک دیا ، کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ یہ علاقے مستقبل میں کتنے اہم ہوں گے۔ آج چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) میں گوادر کی اہمیت ان کے وژن کی عظمت کو ثابت کرتی ہے۔
آغا خان خاندان کا ہر فرد دنیا میں علم، سخاوت اور انسانی فلاح و بہبود کی شمع روشن کرتا آیا ہے جبکہ آغا خان سوم کی وفات کے بعد ان کے پوتے پرنس کریم آغا خان نے اس عظیم روایت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے مزید جِلا بخشی۔اپنی پوری زندگی کے دوران محترم پرنس کریم آغا خان کے دل میں خدمت کا جذبہ ایک شعلہ جوالہ کی مانند بھڑکتا اور روشنی بکھیرتا نظر آیا جو آنے والے وقت میں بھی اپنی اہمیت ثابت کرتا رہے گا۔
کراچی میں واقع آغا خان یونیورسٹی ہسپتال، جو ملک کا ایک ممتاز طبی ادارہ ہے، پرنس کریم آغا خان کی گولڈن جوبلی (2007) سے کئی دہائیوں قبل 1983 میں قائم کیا گیا اور اس وقت سے یہ ہسپتال طبی میدان میں اعلیٰ معیار کی خدمات فراہم کرنے کے حوالے سے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں مختلف شعبوں میں جدید ترین علاج کی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔
ماضی قریب میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جب امن و امان کی صورتِ حال خراب ہوئی اور عوام الناس میں اضطراب، بے یقینی اور بے قراری پیدا ہوئی تو پرنس کریم آغا خان نے اپنے پیروکاروں کو تسلی دی اور انہیں ہجرت کرنے کے بجائے اپنے وطن کی ترقی میں حصہ لینے کی تلقین کی۔ آج آغا خان چہارم کے اعتماد کی روشنی میں کراچی ایک بار پھر معاشی، تعلیمی، اور سماجی ترقی کی راہ پر گامزن ہے جو ان کی قیادت کی ایک ایسی طاقت ہے جو مایوسی کو امید میں بدلتی اور کمزوروں کو حوصلہ دیتی ہے۔
تاریخی طور پر دنیا بھر کے اسماعیلی مسلمانوں نے سلطان محمد شاہ آغا خان سوم کی گولڈن (1937)، ڈائمنڈ (1946) اور پلاٹینم (1954) جوبلی کا جشن بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا۔ آپ نے بے شمار فلاحی اداروں کی بنیاد رکھی، جو آج بھی بنی نوع انسان کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔ مثال کے طور پر پلاٹینم جوبلی کے دوران افریقہ اور دیگر خطوں میں کئی مالیاتی کوآپریٹو سوسائٹیز قائم ہوئیں جبکہ ڈائمنڈ جوبلی اسکولز نے خاص طور پر پاکستان کے دور افتادہ علاقے گلگت بلتستان میں تعلیم کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ تمام کامیابیاں آغا خان خاندان کی بے لوث قربانیوں اور انسانیت کے لیے ان کے غیر متزلزل عزم کا مظہر ہیں۔
آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) دنیا بھر میں انسانی فلاح کے منصوبے چلا رہا ہے، جس میں تعلیم، صحت، ثقافت، زراعت، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی شامل ہے۔ ان کے قائم کردہ تعلیمی ادارے آج دنیا کے اعلیٰ ترین معیارات پر پورا اتر رہے ہیں اور ان کی صحت کے شعبے میں خدمات نوبیل انعام یافتہ منصوبوں سے کسی طرح کم نہیں۔ان کے صاحبزادے شہزادہ رحیم بھی انہی اصولوں پر عمل پیرا ہیں جنہیں پرنس کریم آغا خان نے اسماعیلی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی زندگی میں اپنا وصیت نامہ تحریر کرکے اسماعیلی جماعت کا اگلا امام مقرر کردیا تھا، یہ الگ بات کہ روایت کے مطابق آپ کی وصیت آپ کے انتقال کے بعد سامنے لائی گئی ۔
پرنس رحیم آغا خان خصوصاً ماحولیاتی تبدیلی جیسے اہم عالمی مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور کاربن کے اخراج کو صفر پر لانے کے لیے بے شمار اقدامات اٹھا رہے ہیں۔دراصل آغا خان خاندان کی قیادت محض روایتی نہیں بلکہ عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ ان کی سوچ محدود نہیں بلکہ ایک عالمگیر ویژن رکھتی ہے، جہاں خدمت، ترقی اور انصاف کو بنیادی اصول قرار دیا گیا ہے۔ پرنس رحیم الحسینی جنہیں دنیا اب آغا خان پنجم کے نام سے جانتی ہے، ٹائم اینڈ نالج نذرانہ (ٹی کے این) کے اصول کو ترویج دے رہے ہیں، جس کا مقصد ہر اسماعیلی کو ایک دوسرے اور بنی نوع انسان کی مدد کے ذریعے ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔
آغا خان خاندان کی خدمات کا احاطہ کرنا کسی ایک مضمون میں ممکن نہیں، کیونکہ ان کے عظیم کارنامے تاریخ انسانی کیلئے ہمیشہ یادگار بلکہ سنہری حروف سے لکھے جائیں گے اور انہیں ہر دور میں یاد کیا جائے گا۔ آغا خان سوم نے جس تحریک کا آغاز کیا تھا، ان کی بے مثال قربانیوں اور پرنس کریم آغا خان کی فلاحی خدمات نے نہ صرف اسماعیلی جماعت بلکہ پوری دنیا کے لیے روشنی کے مینار قائم کیے ہیں۔ اب یہ روشن چراغ پرنس رحیم آغا خان پنجم کے ہاتھ میں ہے، جو اسے مزید بلند مقام تک لے جانے کے لیے پُرعزم ہیں۔
آغا خان خاندان کی خدمات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ حقیقی قیادت سرحدوں سے بالاتر ہوتی ہے اور اس کا سب سے اعلیٰ اظہار دوسروں کی خدمت میں ہوتا ہے۔ ان کا سفر جاری ہے، اور ان کی نورانی روشنی ہمیشہ انسانیت کے لیے امید، محبت اور ترقی کی علامت بنی رہے گی۔ جیسا کہ پرنس رحیم آغا خان نے اپنے پیروکاروں کو جاری کردہ پہلے حکم نامے میں کہا۔
اپنے خطاب میں پرنس رحیم آغا خان نے اپنے مرحوم والد پرنس کریم آغا خان چہارم کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور اپنے اہلِ خانہ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنی موجودگی اور حمایت سے آغا خان پنجم کا ساتھ دیا۔ انہوں نے پرتگال اور مصر کی حکومتوں کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کے والد پرنس کریم آغا خان کی خدمات کو تسلیم کیا اور ان کے جنازے اور تدفین کے باوقار انتظامات کو ممکن بنایا۔
اپنے افتتاحی خطاب میں پرنس رحیم آغا خان نے اس بات کا عہد کیا کہ وہ اپنی زندگی اسماعیلی جماعت کی روحانی اور مادی فلاح و بہبود کے لیے وقف کریں گے۔ انہوں نے اسماعیلی مسلم عقیدے کے اصولوں، دنیاوی اور روحانی معاملات میں توازن قائم رکھنے کی اہمیت اور دین پر باقاعدہ عمل کرنے کے بارے میں گفتگو کی۔
پاکستان آغا خان کے آباو اجداد کا بنیادی ملک ہےاور پاکستان میں اسماعیلی برادری کی کثیر تعداد اس بات کی غماز ہے کہ انہیں پاکستان سے انسیت و محبت اور ایک لگاؤ ہے۔ پاکستان میں آغا خان خاندان کی بے لوث خدمت کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے نئے امام اور انسانیت کے متحرک رہنما سے استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے پاکستان، خصوصاً صحت اور تعلیم کے شعبوں میں، پرنس رحیم آغا خان کے روشن خیالات اور فلاحی وژن سے رہنمائی حاصل کرکے ایک ارتقائی راہ متعین کر سکتا ہے۔ مزید برآں، پاکستان کو وقت ضائع کیے بغیر ایک ایسا ماحول فراہم کرنا چاہئے جونئے امام کو کراچی کے قریب سپر ہائی وے کے کسی موزوں علاقے میں اپنا ونٹر کیپٹل قائم کرنے پر راغب کرے، تاکہ وہ لزبن کی سخت سردیوں میں پاکستان کو اپنا دوسرا گھر بنا سکیں جہاں ان کے پیروکاروں کو بھی قلبی سکون اور اپنے روحانی پیشوا کے درشن حاصل کرنے میں آسانی ہوسکے۔
مجھے یقین ہے کہ ایسے منصوبے کے اعلان کے فوراً ہی بعد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے 15 ملین سے زائد اسماعیلیوں کی کثیر تعداد ونٹر کیپٹل کے قریب بسنے کی خاطر پاکستان کی سرزمین پر سرمایہ کاری کرنے اور ترقی کی نئی راہیں کھولنے کیلئے بے تاب ہوگی۔ اس سے نہ صرف ملکی معیشت کو فروغ ملے گا بلکہ پاکستان آغا خان پنجم کی بصیرت سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر ایک فلاحی اور ترقی پسند ریاست کے طور پر اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیابی حاصل کرسکے گا۔