مقبول خبریں

کالمز

friend

دوست

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

friend

ہم سب کی اخلاقی حالت ایسی ہوچکی کہ ہم دوستی کرنا اور نبھانا بھی بھول چکے۔ بلکہ شاید ہم یہی نہیں جانتے کہ دوست ہوتا کون ہے؟ ہم شناسائی کو بھی دوستی سمجھ بیٹھتے اور اور جو دوست ہوتا ہے اس سے بھی تعلق ہمارا بس غرض کا ہوتا ہے۔

ہم اپنے صحافتی کیریئر کے دوران جتنا عرصہ برسر روزگار رہے ہیں۔ لگ بھگ اتنی ہی مدت بے روزگار بھی رہے ہیں۔ سو یہ عجیب تماشے مسلسل دیکھے کہ جب ہم کسی بڑے اخبار میں ہوئے تو کچھ لوگ تو ہم پر گویا جان چھڑکنے پر ہی آمادہ رہتے۔

لیکن جوں ہی بے روزگار ہوجاتے، یہ گدھے کے سر سینگ کی طرح غائب ہوجاتے۔ اور اگلی بار تب ہی نظر آتے جب ہم پھر کسی اخبار کا حصہ بن جاتے۔ یوں ہمیں حلقہ احباب کی ایسی کٹیگری بھی وضع کرنی پڑی جس کا عنوان “خود غرض” رکھا۔

دوست کون ہوتا ہے ؟ ہمارے متعلقین میں اس کی اہمیت کیا ہوتی ہے ؟ یہ سمجھنے کے لئے لازم ہے کہ پہلے ہم یہ سمجھ لیں کہ تاریخ دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک اختیاری اور دوسری واقعاتی۔ واقعاتی تاریخ وہ کہلاتی ہے جس کے ہم خالق نہیں ہوتے بلکہ یہ ہم پر ہمارے اختیار کے بغیر واقع ہوجاتی ہے۔

مثلا ہم جن والدین کی اولاد، جس قوم قبیلے کے فرد ہیں یہ اپنے اختیار سے نہیں ہیں۔ یہ ہم واقعاتی طور پر ہیں۔ لیکن جب ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمیں کس کالج میں پڑھنا ہے یا کس ادارے میں ملازمت کرنی ہے تو ہماری تاریخ کا یہ حصہ اختیاری ہوتا ہے۔ اپنی اس تاریخ کے ہم خود ہی خالق ہوتے ہیں۔ یوں ہماری مجموعی تاریخ کا ایک حصہ واقعاتی ہوتا ہے، اور ایک حصہ اختیاری۔

سو ہمارے سگے بھائی ہمارے واقعاتی بھائی ہوتے ہیں۔ ان کا بھائی ہونے میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ ہمارا اور ان کا بھائی بند قدرت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اس باب میں کسی بھی انسان کی بے بسی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ہم سگے بھائیوں سے فاصلہ تو اختیار کرسکتے ہیں۔ قطع تعلق بھی کرسکتے ہیں۔

مگر ان کے ساتھ اپنے رشتے کی جڑ نہیں کاٹ سکتے۔ ہماری شدید دشمنی ہی کیوں نہ ہوجائے، کہلائیں گے ہم بھائی ہی۔ اگر ہماری کوئی خبر بنی تو وہ بھی یہی ہوگی کہ بھائی نے بھائی کے ساتھ فلاں حرکت کردی۔

ایک حقیقی دوست ہمارا وہ بھائی ہوتا ہے جسے ہم اپنے اختیار سے بھائی بناتے ہیں۔ چنانچہ تعلق مثالی ہو تو یہ بات عام سننے کو ملتی ہے کہ فلاں ہمارے لئے بھائیوں سے بھی بڑھ کر ہے۔

ایسی ایک دوستی کے ہم بہت قریب سے یوں چشم دید گواہ ہیں کہ ہمارے مولانا محمد عالم رحمہ اللہ اور ہمارے سسر شیخ الحدیث مولانا عنایت اللہ خان شہید کی پہلی ملاقات تب ہوئی جب ہمارے والد 14 اور سسر 12 برس کے تھے۔ اور یہ دوستی اس لمحے تک قائم رہی جب 2001ء میں ہمارے سسر شہید ہوگئے۔ یہ دوستی لگ بھگ ساٹھ برس پر محیط رہی۔

مولانا عنایت اللہ خان شہید دھوراجی سوسائٹی میں کوئی چالیس سال مقیم رہے۔ اس محلے میں ہمارے والد سے متعلق سب کا یہی خیال تھا کہ وہ مولانا عنایت اللہ خان شہید کے بھائی ہیں۔ دونوں نے کبھی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اور تعلق کی شدت سے تاثر سب نے یہی اخذ کر رکھا تھا کہ یہ سگے بھائی ہیں۔

عام طور پر خیال یہ ہے کہ بھائی تو ہمارے سگے ہوتے ہیں۔ لیکن دوستوں کا نمبر ان کے بعد آتا ہے۔ یوں گویا یہ کٹیگری دوئم کے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر آپ بغور جائزہ لیجئے تو دوست کی اہمیت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ آپ کٹیگریز کے چکر میں ہی نہیں پڑ سکتے۔

بھائی کے ساتھ تو ہمارے مفادات مشترک ہوتے ہیں۔ مثلا میراث میں شراکت وغیرہ۔ جس کا نتیجہ بسا اوقات اس طرح کی خبروں کی صورت بھی نکل آتا ہے کہ جائیداد پر قبضے کے لئے بھائی نے بھائی کا گلا کاٹ دیا۔ لیکن دوست کے ساتھ ہمارا مفادات کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایک مخلص اور حقیقی دوست ہوتا ہی وہ ہے جو بے لوث ہو۔

وہ دوست سے کوئی امید اور کوئی طمع نہیں رکھتا۔ مگر ان میں سے جو بھی مشکل میں آیا دوسرا کاندھے سے کاندھا جوڑ کر کھڑا ہوتا ہے۔ وہ کسی صورت دوست کو مشکل گھڑی میں تنہاء نہیں چھوڑتا۔

کسی حادثے کی صورت ساری امیدیں بھائیوں سے ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان کے ساتھ مفادات مشترک ہوتے ہیں۔ چنانچہ مفادات کی شراکت ہی یہ پابندی بھی عائد کرتی ہے کہ مشکل وقت میں بھی ساتھ رہے گا۔ یہ بھائیوں کی ایک باقاعدہ نوعیت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ایسی ذمہ داری جس میں غفلت پر طعنوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اور یہ طعنے ہوتے بھی بجا ہیں۔

کیا دوست پر ایسی کوئی اخلاقی ذمہ داری ہے ؟ قطعاً نہیں۔ فرض کیجئے کوئی ٹریفک حادثہ ہوگیا تو اس سے بس یہی توقع ہوتی ہے کہ درجن بھر کیلے، کلو دو کلو سیب لے کر عیادت کو پہنچ جائے۔ اور یوں گویا اس کا اخلاقی فرض پورا ہوجاتا ہے۔ لیکن کیا حقیقی دوست بس اتنا ہی کرتا ہے ؟ نہیں، وہ اپنے وسائل سمیت دوست کے سرہانے کھڑا ہوجاتا ہے۔ اور تب تک خود کو بے آرام رکھتا ہے جب تک دوست کو آرام نہ آجائے۔

پھر دوست کی ایک اور بڑی اہمیت ہے جو بس اسی کی ہے، سگے بھائی کی بھی نہیں۔ ذرا غور کیجئے، ہمارے گھر کے باہر کی دنیا کیا ہے ؟ اگر اس میں دوست نہیں ہے تو ایمان سے بتایئے باہر کی یہ دنیا دھکے دیتے ہجوم کے سوا کچھ ہے ؟ کسی سے راستہ پوچھئے تو اگلا زبان سے جواب دینے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ پاؤ بھر زبان کی بجائے دو ڈھائی کلو سر ہلا کر انکار کرتا ہے۔

ہم سب جب گھر سے نکلتے ہیں تو سناٹے میں ہوتے ہیں۔ سفر کے لئے رکشہ ٹیکسی اختیار کرنے لگتے ہیں تو ٹینشن رہتی ہے کہ مناسب کرائے پر بات بنے گی یا نہیں ؟ ڈرائیور کا سلوک اچھا ہوگا یا نہیں ؟ بس اور ویگن میں سوار ہوں تو ٹینشن کہ کوئی جیب نہ کاٹ لے۔

دکاندار سے کچھ خریدنے جائیں تو پریشانی کہ دھوکہ نہ کردے۔ گھر سے باہر کی اس ٹینشن بھری دنیا میں ہماری ٹینشن تب ہی ختم ہوتی ہے جب بالآخر اپنے دوست یا دوستوں تک پہنچ جائیں۔ جو ورک پلیس پر بھی ہوسکتے ہیں اور کسی تقریب میں بھی۔ ان تک پہنچتے ہی رونق لگ جاتی ہے۔ ہر ٹینشن دور اور راحت و اطمینان حاضر۔

رعایت اللہ فاروقی کے دیگر کالمز پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

کئی سال ہوئے ہم سے اعجاز منگی نے سوال کیا”حقیقی دوست کون ہوتا ہے ؟”ہم نے جواب میں کچھ فلسفے جھاڑ دیئے، جنہیں سن کر اعجاز نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا”نہیں مولانا ! آپ نہیں جانتے۔

حقیقی دوست وہ ہوتا ہے جو حوالات کی دیوار سے ٹیک لگائے ناراض بیٹھا ہو۔ اور اسی حوالات میں موجود دوست کی طرف دیکھ بھی نہ رہا ہو۔ اور بہت دکھ کے ساتھ کہہ رہا ہو، میں نے کہا تھا نا کہ پھنس جائیں گے ؟اب یہ وہ دوست ہے جسے معلوم تھا کہ پھنس جائیں گے۔ اس کے باوجود اس نے دوست کا ساتھ دیا، اور پھنسوا لیا خود کو بھی”

بسا اوقات ہمارے دوستوں سے کوئی اخلاقی برائی بھی سرزد ہوجاتی ہے، سنگین نوعیت کی برائی بھی۔ایسے مواقع پر بعض لوگ دوست کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ کمزور لمحات ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ترک تعلق ہی کرلیں۔ ترک تعلق اس سے کیا جاتا ہے جو اخلاقی برائیوں کا باقاعدہ قسم کا معمول رکھتا ہو۔

ایک آدمی مستقل چور، ڈاکو یا فراڈیا ہے تو اس سے ترک تعلق ہی کرنا چاہئے۔ لیکن ایک اچھے بھلے دوست سے بس ایک کمزور لمحے میں کوئی خطاء سرزد ہوگئی تو اسے تنہاء چھوڑ دیا جائے گا ؟ ایسے دوست کو ڈانٹ لیجئے، چماٹ رسید کر دیجئے مگر ساتھ مت چھوڑیئے۔
اس کے برخلاف خود کو اس کے مزید قریب کرلیجئے تاکہ وہ یہ غلطی دہرا نہ سکے۔ مت بھولئے کہ فرشتے آپ ہیں، اور نہ ہی آپ کے دوست !

Related Posts