وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک نازک موڑ پر ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے کیونکہ ملک کو معاشی بحران اور پریشان کن خارجہ تعلقات کا سامنا ہے لیکن ان کے لئے سب سے بڑا چیلنج ایک کمزور اتحاد کے ساتھ ملک پر حکومت کرنا ہوگا۔
11 سیاسی جماعتوں کے ایک کمزور اتحاد نے اپنے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے عمران خان کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لئے ہاتھ ملایا، یہ جماعتیں اپنے مفادات رکھتی ہیں لیکن سیاسی نقطہ نظر اور مختلف ایجنڈوں کی مخالف ہیں۔ یہ جماعتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ یہ اتحاد قلیل مدتی ہوگا اور اگلے انتخابات میں وہ ایک دوسرے کے خلاف لڑیں گے۔
بالآخر وفاقی کابینہ کی تشکیل میں کئی دن کی مشاورت ہوئی اور اب شہباز شریف کو اہم فیصلے کرنے ہوں گے، کئی جماعتوں، خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ایک دراڑ پیدا ہوئی کہ آیا آگے کی پیچیدگیوں کو جانتے ہوئے وفاقی کابینہ میں شامل ہونا چاہیے یا نہیں۔
افواہیں تھیں کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اگلے وزیر خارجہ ہو سکتے ہیں۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کو کابینہ میں جگہ لیتے دیکھنا غیر معمولی بات تھی جہاں وہ وزیر اعظم کے سامنے جوابدہ ہوں۔ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی دشمنی کی ایک طویل تاریخ ہے اور دونوں کو اتحادی شراکت داروں کے طور پر احتیاط سے چلنا ہوگا۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے، کیونکہ عمران خان کی برطرفی کی جدوجہد کے بعد وہ بھی کسی خاص چیز کی تمنا رکھتے ہیں، جے یو آئی (ف) کے سربراہ شاید مٹھی بھر وزارتوں سے خوش نہ ہوں اور ہو سکتا ہے کہ ان کی نظریں سب سے بڑی نشست یعنی صدارت پر ہوں، یہ جانتے ہوئے کہ ایسا نہیں ہو سکتا، انہوں نے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔
ایم کیو ایم پی، جو عمران کی برطرفی سے کچھ دن پہلے پی ٹی آئی سے الگ ہوگئی تھی، بھی اپنے منصفانہ حصہ کی امید رکھے گی۔ ایم کیو ایم جانتی ہے کہ وفاقی وزارتیں عارضی ہیں اور متحدہ بلدیاتی انتخابات کے بعد کراچی کے معاملات میں بڑا کردار ادا کرنے کی خواہش رکھتی ہے، یہ نہ بھولیں کہ دیگر پارٹیاں جن میں BNP، ANP، QWP وغیرہ کے اپنے مفادات ہوں گے، جس کے بعد شہباز شریف کے لیے گورننس پر توجہ مرکوز کرنا مشکل ہو جائے گا۔
دیکھنا یہ ہے کہ یہ اتحاد کب تک برقرار رہے گا یا ریت کے گھر کی طرح ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔ مثالی بات یہ ہوگی کہ جلد انتخابی اصلاحات لائی جائیں اور فوری انتخابات کی جانب بڑھا جائے، سیاسی استحکام لانے اور اس انتشار کی کیفیت کو ختم کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔