کراچی:ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات مگوں نے پاکستان کی عرصہ دارز کے بعد جاری ہو نے والی ایس ایم ای پالیسی کے اجراء پر وفاقی وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار کی کاوشوں کو سراہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایس ایم ای پالیسی کئی سالوں سے التوا کا شکا ر تھی اور بدقسمتی سے پا لیسی فارمولیشن کے اس عمل کو کئی بار موخر کیا گیا۔
میاں ناصر حیات مگوں نے کہا کہ آسان فنانسنگ ایس ایم ایز کے لیے لائف لائن کا درجہ رکھتی ہے اور اسٹیٹ بینک کی موجودہ SAAF اسکیم نے کمرشل بینکوں کو 8فیصد تک بینکنگ اسپریڈ کی اجازت دی ہے۔
جو کہ اسٹیٹ بینک کی 1فیصد ری فنانسنگ ریٹ کے علاوہ ہے؛ جو اسے ایس ایم ایز کے لیے 9فیصد بنادیتا ہے۔ سرمائے کی اتنی زیادہ قیمت ناقابل برداشت، غیر پیداواری اور ناقابل عمل ہے۔
ایف پی سی سی آئی نے ایس ایم ایز کے لیے 3فیصد کی انٹرسٹ ریٹ کی تجویز پیش کی ہے تاکہ اسے چھوٹے کاروباری اداروں اور افراد کے لیے قابل برداشت بنایا جا سکے۔
میاں ناصر حیات مگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کی تنظیموں کی تعریف کو اپ ڈیٹ کرے اور اسے بین الاقوامی سطح پر موجودہ بیسٹ پریکٹس کے مطابق MSMEsبنائے؛ تاکہ ان اداروں کے لیے پاکستان کے مخصوص زمینی حقائق پر مبنی ترجیحی سپورٹ پروٹوکول وضع کیے جا سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ MSMEs معاشی ترقی اور روزگار پیدا کرنے کا انجن ہیں۔ایف پی سی سی آئی کے صدر نے تجویز کیا کہ سالانہ 250 ملین روپے کی سالانہ سیلز کی نا کافی لمٹ پاکستان کے موجودہ زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتی۔
کیونکہ جب یہ حد مقرر کی گئی تھی تو ایکسچینج ریٹ ایک ڈالر کے لیے تقریباً 60 روپے کا تھا جو کہ اب بڑھ کر 170 روپے سے زائد ہو گیا ہے۔ اسی تناظر میں انہوں نے تجویز دی ہے کہ ایس ایم ایز کے بینیفٹس کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے نئی حد ڈیڑھ ارب روپے مقرر کی جا نی چاہیے۔
ایف پی سی سی آئی کے صدر نے ٹیکسیشن کے ایک آسان اور ہموار نظام کے لیے اپنی تجاویز کا اعادہ کرتے ہوئے کہاہے کہ ٹیکس ریٹرن کے فارم کو آسان بنا یا جا ئے؛ کرپشن کا خاتمہ ہو؛ سیلز ٹیکس کی شرحوں میں مرحلہ وار کمی کی جائے وغیرہ۔
اس مقصد کے لیے ایف پی سی سی آئی کی تجاویز پر مبنی دستا ویزسے مدد لی جا ئے؛جیسے کا فی ماہ پہلے ہی فروری 2021 میں وزیر اعظم پاکستان کو بھجوایا جا چکا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں 229.97 پوائنٹس کی زبردست تیزی ریکارڈ