فارن فنڈنگ کیس اور یکساں مواقع

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آٹھ سال سے الیکشن کمیشن میں کچھوے کی چال چلتے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ بالآخر سنا دیا گیا۔ اس تاخیر کی بنیادی وجوہات تو وہی معلوم وجوہات ہیں جن کے لئے “نامعلوم وجوہات” کی اصطلاح میں ہی بھلائی ہے۔

مگر ان وجوہات کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی شامل رہی ہے کہ اس کیس کے دوران پی ٹی آئی کے وکلاء نے چالیس بار کیس کے التوا کی درخواستیں دیں جبکہ سات بار اس کے نوٹسز کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ مگر ہوا وہی جو ایک دن ہر بکرے کی ماں کے ساتھ ہوکر رہتا ہے۔ سو اس کیس میں بھی بکرے کی ماں اب چھری تلے ہے، اور چھری اسی پی ڈی ایم کے ہاتھ میں ہے جس کی قیادت کو بکرے کی ماں سالوں سے کرپٹ قرار دیتی آرہی تھی۔

جب فیصلہ آیا تو شاہ محمود قریشی چھ آٹھ گھنٹے تو انتظار کرتے رہے کہ مغرب کی سیاسی اقدار کا بار بار حوالہ دینے والے عمران خان شاید مغربی سیاسی روایات کے مطابق استعفے دیدیں مگر جب دیکھا کوئی ہلجل نہیں ہو رہی تو بیان داغ دیا “الحمدللہ کپتان ایک بار پھر سرخ رو ہوا” اسد عمر اور فواد چوہدری سمیت جملہ ہمنوا بھی اس صبح یہی راگ الاپتے رہے کہ فیصلہ ہمارے لئے کلین چٹ ہے۔ مگر جب فیصلہ پڑھ چکے تو شام کو موقف اختیار کرلیا “انشاء اللہ فیصلے کو عدالت میں چیلنج کریں گے” گویا اس بات کو چیلنج کریں گے کہ کپتان کو سرخ رو کیوں کیا گیا ؟

ہر چند کہ پورے یوتھواڑے کو بھی امید ہے کہ انہیں ریسکیو کرنے کو “بندیال ایکسپریس” آئے گی اور یہی خیال بطور اندیشہ پی ڈی ایم کے ہمدردوں میں بھی نظر آرہا ہے۔ خود ہمیں بھی اس امکان سے انکار نہیں۔ مگر سیاست کھیل ہی امکانات کا ہے سو ایک امکان اور بھی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ عمران خان اور ان کے سرپرستوں میں پہلی ناچاقی اس بات پر ہوئی تھی کہ عثمان بزدار کو وزیر اعلی پنجاب کیوں بنایا ؟ عمران خان کے تقریبا پورے دور اقتدار میں ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ عثمان بزدار کو ہٹا کر طے شدہ سکیم کے تحت پرویز الہی کو وزیر اعلی پنجاب بنایا جائے۔ مگر خان عثمان بزدار والے فیصلے پر اٹل رہا اور آخری دم تک اس دباؤ میں نہ آیا۔

اس دوران پلوں کے نیچے اتنا عرصہ پانی بہنے دیا گیا جتنا عرصہ بالعموم کسی وزیر اعظم کو اقتدار میں رکھنے کی روایت سالہا سال سے چلی آرہی ہے۔ جب تین سال کی یہ مدت پوری ہوگئی تو وہی کھیل شروع ہوگیا جو کسی بھی وزیر اعظم کے تیسرے سال ہوتا آیا ہے۔ پی ڈی ایم پہلے ہی اس کے لئے ماحول تیار کرچکی تھی۔ سو عمران خان بھی انہی وزرائے اعظم کی قطار میں کھڑے کر دیئے گئے جو تین ساڑھے تین سال ہی حکومت کر پائے۔ یوں آج کی تاریخ کا سیاسی منظر نامہ یہ ہے کہ حسب روایت بیچ راستے وزیر اعظم بھی اتار دیا گیا۔ اس اقدام سے پی ڈی ایم کو بھی رام کرلیا گیا، اور اسی اقدام سے پرویز الہی کے راستے کی رکاوٹ بھی دور کردی گئی۔

پی ڈی ایم کی حکومت اسٹیبلیشمنٹ کی چوائس نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ لہذا اقتدار پر اس کا کم کنٹرول خود اسٹیبلیشمنٹ کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ کیونکہ اسٹیبلیشمنٹ کی موجودہ قیادت اس خوف کا تو بہر حال شکار ہے کہ وہ چکیوں کے دو پاٹ کے بیچ آچکی ہے۔ ایک پاٹ پی ڈی ایم ہے تو دوسرا پی ٹی آئی۔ سو لگ ایسا رہا ہے کہ دونوں کو تھوڑی تھوڑی طاقت بھی دیدی گئی ہے اور دونوں کو اتنا کمزور بھی رکھا گیا ہے کہ مل کر اسٹیبلیشمنٹ کو پیس نہ سکیں۔ سو سمجھنے والا نکتہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے حمزہ شہباز کی حکومت کا بستر گول کرنے کا جو حالیہ فیصلہ دیا ہے وہ بظاہر بیشک پی ٹی آئی کے حق میں نظر آتا ہے۔ مگر یہ ثابت ہونا ابھی باقی ہے کہ یہ فیصلہ واقعتاََ پی ٹی آئی کے ہی حق میں دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں پنجاب میں پرویز الٰہی وزیر اعلی بنے ہیں جن کی وزارت اعلیٰ عمران خان کو کسی صورت قبول نہ تھی اور انہیں وزیر اعلی بنوانا اسٹیبلیشمنٹ کی اولین خواہش تھی۔ لہذا خواہش تو اسٹیبلیشمنٹ کی پوری ہوئی ہے۔ سو سپریم کورٹ کا فیصلہ عمران خان نہیں بلکہ اسٹیبلیشمنٹ کے حق میں دیا گیا فیصلہ نظر آتا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے ؟ اس کا پتہ تب چلے گا جب عمران خان پرویز الہی کو کوئی ایسی ڈائریکشن دیں گے جو اسٹیبلیشمنٹ کی منشاء کے خلاف ہو۔ اگرپرویز الہی نے اسے تسلیم کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیا تو واضح ہوجائے گا کہ وہ لمحہ آپہنچا جب عمران خان سے کہا جائے “ہاتھ ہلا دیجئے، وہ سامنے کیمرہ لگا ہوا ہے” گویا ثابت ہوجائے گا کہ پنجاب میں پیچیدہ سیاسی پرانک پی ڈی ایم کے ساتھ نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا ہے۔ اس صورت میں خان زیادہ سے زیادہ کیا کریں گے ؟ یہی کہ پرویز الہی سے حمایت واپس لے لیں گے۔ سو اس سے فرق کسے پڑنا ہے ؟ پرویز الہی پی ڈی ایم کے پاس چلے جائیں گے۔

فی الحال صورتحال یہ ہے کہ جنرل باجوہ اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل الیکشن کروانا چاہتے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ وہ فری اینڈ فیئر الیکشن کروا کر ریٹائرڈ ہونا چاہتے ہیں تاکہ 2018ء والا داغ دھل سکے۔ اس حوالے سے ان کے لئے صورتحال یوں بھی اطمینان بخش ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ فری اینڈ فیئر الیکشن میں نون لیگ بھاری اکثریت سے اقتدار میں آکر پریشانی کھڑی نہیں کرسکتی۔ بلکہ توقع یہ ہے کہ اگلی حکومت بھی پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت ہی ہوگی۔ مخلوط حکومت اسٹیبلیشمنٹ کی اولین سیاسی آرزو ہوتی ہے۔ کیونکہ ایسی حکومت کو کسی بھی وقت لڑھکانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ کسی چھوٹی پارٹی کو ایک فون کال ہی مقصد پورا کر دیتی ہے۔

جنرل باجوہ کی اس خواہش کو پی ٹی آئی اپنے حق میں استعمال کرنا چاہ رہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ جب جنرل باجوہ کی خواہش پر جلد الیکشن کا اعلان ہو تو تاثر یہ دیا جائے جیسے یہ جلد الیکشن پی ٹی آئی کے دباؤ کا نتیجہ ہیں، لہذا یہ عمران خان کی جیت ہے۔ مگر مسئلہ یہاں اٹکا ہوا ہے کہ نون لیگ کا موقف یہ ہے کہ اگر نواز شریف اگلے انتخابات میں پارٹی کی جانب سے الیکشن مہم نہیں چلا سکتے تو یہ پھر فری اینڈ فیئر الیکشن تو نہ ہوں گے۔ فری اینڈ فیئر تو اسی صورت ہوسکتے ہیں جب تمام پارٹیوں کو یکساں مواقع میسر ہوں، لہذا نواز شریف کی واپسی کا راستہ کھولا جائے۔ نظر یوں آ رہا ہے کہ نون لیگ کی خواہش تو پوری کی جارہی ہے مگر بالکل مختلف انداز سے۔ نون لیگ کے نزدیک یکساں مواقع کی صورت یہ ہے کہ نواز شریف اور عمران خان دونوں میدان میں ہوں۔ مگر نواز شریف کی واپسی اسٹیبلیشمنٹ کے لئے خطرے کی گھنٹی بھی بن سکتی ہے سو شاید نواز شریف کی واپسی کی بجائے عمران خان کو بھی میدان سے آؤٹ کرکے “یکساں مواقع” پیدا کرنے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس کاایک ممکنہ حتمی نتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔ ہر چند کہ ہمیں یہی قرین قیاس لگ رہا ہے مگر حقیقت حال آنے والے دن واضح کریں گے!

Related Posts