تحریکِ انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس ایک بار پھر موضوعِ گفتگو بن گیا ہے کیونکہ آج الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وزیرِ اعظم عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے تمام وفاقی وزراء اور اراکینِ اسمبلی کے خلاف قائم کیا گیا فارن فنڈنگ کیس ایک بار پھر زندہ کردیا ہے۔
وقت کی گرد ہر خوبصورت چہرے کو گہنا دیتی ہے، اسی طرح کافی عرصے سے زیرِ التواء فارن فنڈنگ کیس بھی ہمارے ذہن کے نہاں خانوں میں کہیں گم ہوگیا تھا، لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مستعدی نے اس میں جان ڈالتے ہوئے عوام کو اس موضوع پر ایک بار پھر گفتگو پر مجبور کردیا ہے۔
فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟
حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور لاتعداد سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر ملکی فنڈنگ کا معاملہ بے حد پیچیدہ ہے جو تحریکِ انصاف کے گلے کا پھندہ بن سکتا ہے۔ فیصلہ تحریکِ انصاف کے خلاف آنے پر وفاقی کابینہ اور اراکینِ اسمبلی نااہل ہو کر سیٹیں چھوڑنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ باالفاظِ دیگر حکومت گر سکتی ہے۔
سن 2014ء میں پی ٹی آئی کے منحرف ممبر اکبر ایس بابر نے ای سی پی (الیکشن کمیشن آف پاکستان) میں ایک درخواست دائر کی جس میں انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ پی ٹی آئی میں سب کچھ صاف و شفاف نہیں بلکہ اندرونِ خانہ مالی بے ضابطگیاں یہاں بھی پائی جاتی ہیں۔ پی ٹی آئی نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز وصول کیے۔
درخواست گزار اکبر ایس بابر کے مطابق تحریکِ انصآف لاکھوں ملین ڈالرز بذریعہ ہنڈی غیر قانونی طریقے سے منتقل کرواتی رہی جس کیلئے 2 آف شور کمپنیوں کے نام استعمال کیے گئے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کے جلسے جلوس اور سیاسی سرگرمیاں غیر قانونی ہیں کیونکہ ان میں غیر قانونی پیسہ استعمال کیا گیا۔
کیس میں بھارت اور اسرائیل کا نام بھی آتا ہے کیونکہ جن غیر قانونی ذرائع سے پی ٹی آئی رقم وصول کرتی رہی، ان میں بھارت اور اسرائیل سے آنے والی رقوم بھی شامل ہیں جبکہ اکبر ایس بابر نے وزیرِ اعظم سمیت پی ٹی آئی کی اعلیٰ و مرکزی قیادت پر کرپشن (بدعنوانی) کے الزامات بھی لگائے۔
پی ٹی آئی کا ردِ عمل اور قانونی داؤ پیچ
پی ٹی آئی نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان بدعنوان نہیں ہیں جبکہ فارن فنڈنگ کیس انہیں متنازعہ شخصیت بنانے کی غیر قانونی سازش ہے۔ متعدد تحریکِ انصاف رہنماؤں نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس سراسر بے بنیاد اور اس میں لگائے گئے الزامات حقیقت کے برعکس ہیں جنہیں ہم سختی سے مسترد کرتے ہیں۔
کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے تحریکِ انصاف نے 8 اکتوبر 2015ء میں کمیشن کا دائرۂ اختیار چیلنج کردیا۔ پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کام انتخابات منعقد کروانا ہے نہ کہ سیاسی جماعتوں کے فنڈز کی چھان بین کرنا۔ الیکشن کمیشن نے یہ اعتراض مسترد کردیا۔
اب تحریکِ انصاف نے پینترا بدل کر وار کیا۔ 26 نومبر 2015ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخوات میں کہا گیا کہ کمیشن کا دائرۂ اختیار تو ہم تسلیم نہیں کرتے، تاہم اکبر ایس بابر بھی ہم پر انگلی اٹھانے کیلئے اہل نہیں ہیں کیونکہ تحریکِ انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ سے ان کا کوئی براہِ راست تعلق نہیں۔
ڈیڑھ سال تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس چلتا رہا تاہم فیصلہ نہ ہونا تھا، نہ ہوا۔17 فروری 2017ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا دائرۂ اختیار اور درخواست گزار کی حیثیت پر اٹھائے گئے سوالات مسترد کردئیے جس سے پتہ چلا کہ درخواست گزار پاکستانی شہری کی حیثیت سے سوال کرسکتا ہے اور کمیشن مجاز ہے۔
اکبر ایس بابر کی کارروائی
درخواست گزار اکبر ایس بابر نے پی ٹی آئی کے غیر قانونی فنڈز کی تفصیلات ای سی پی کو مہیا کیں، اس کے باوجود آج تک فارن فنڈنگ کیس کا کوئی واضح فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ تحریکِ انصاف کیس کو لٹکانے اور طول دینے کے مختلف حیلے بہانوں پر مسلسل عمل پیرا ہے۔
خود وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے حلفی بیان میں یہ فرمایا کہ پارٹی اکاؤنٹس کی چھان بین کیلئے عام شہریوں کو جوابدہ نہیں، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ہمارے سامنے موجود ہے۔ الیکشن کمیشن نے کم و بیش دو درجن بار پی ٹی آئی سے کہا کہ فنڈز کی تفصیلات فراہم کرے، تاہم پی ٹی آئی کی ٹال مٹول آج تک جاری ہے۔
آئینی تقاضے
الیکشن کمیشن میں بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات جمع کروانا سیاسی پارٹیز آرڈر 2002ء کی دفعہ 13 کے تحت لازمی ہے جس میں عام طور پر ہیر پھیر کی جاتی ہے۔ تحریکِ انصاف ہی کیا، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت پاکستان کی تمام ہی سیاسی جماعتیں کلی یا جزوی طور پر اس ہیر پھیر میں کہیں نہ کہیں ملوث ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے سربراہ ای سی پی میں سرٹیفیکیٹ جمع کرواتے ہیں جو کہتا ہے کہ ہم نے کمیشن کو مالی تفصیلات ٹھیک ٹھیک فراہم کی ہیں جبکہ پارٹیز آرڈر 2002ء کی شق 12 کہتی ہے کہ وفاقی حکومت کسی بھی ایسی سیاسی جماعت کی تحلیل عمل میں لاسکتی ہے جو غیر ملکی فنڈنگ لیتی ہو۔
اصل مسئلہ کیا ہے؟
اگر ہم کسی عام شہری کو جو زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہے، یہ سمجھانا چاہیں کہ فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟ تو اس کیلئے قانون کی شقوں کی تشریح کرنے کی بجائے یہ بتانا ضروری ہوگا کہ فارن فنڈنگ سے مراد کیا ہے؟
یہ بات بھی ہم جانتے ہیں کہ فارن فنڈنگ غیر ملکی عطیہ جات کو کہتے ہیں یعنی ایسا پیسہ جو بیرونِ ملک سے کسی سیاسی پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں میں معاونت کیلئے دیا جاتا ہے۔
غور کیجئے تو اس میں سب سے بڑا مسئلہ ملکی مفادات کا ہے۔ ایک سیاسی پارٹی جو امریکا یا بھارت سے مالی امداد حاصل کرکے اقتدار میں آتی ہے، کیا وہ پاکستانی شہریوں کیلئے کچھ کرنا چاہے گی؟
یقیناً نہیں۔ اور یہی وہ وجہ ہے جس کے باعث فارن فنڈنگ آئینِ پاکستان کے تحت ناجائز اور غیر قانونی قرار دی گئی ہے کیونکہ یہ فنڈنگ پاکستان میں دہشت گردی اور انتشار پھیلانے میں بھی کام آتی ہے۔
پی ٹی آئی قیادت کو درپیش خطرات اور ملکی مسائل
اگر تحریکِ انصاف پر فارن فنڈنگ ثابت ہو گئی تو وفاقی حکومت کو ایک ڈیکلریشن جاری کرنا پڑ جائے گاجس کے 15 روز کے بعد سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی کہ پی ٹی آئی کو تحلیل کردیا جائے۔ یہ اتنا بڑا خطرہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے بڑے بڑے ذمہ داروں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔
اگر تحریکِ انصاف تحلیل ہوئی تو وفاقی حکومت خود بخود گر جائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کسی سیاسی پارٹی کے وجود سے کہیں بڑا ہے اور اس کے سر پر کورونا وائرس کی تلوار لٹک رہی ہے جو اب تک سینکڑوں جانیں لے چکی ہے اور ہزاروں افراد کو بیمار کرچکی ہے۔
کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے نافذ لاک ڈاؤن نے ملک میں بے شمار افراد کو بے روزگار کردیا ہے۔ ہزاروں افراد نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے اور لاکھوں کی نوکریاں خطرے میں ہیں۔ ایسے میں فارن فنڈنگ کیس صرف تحریکِ انصاف کیلئے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کیلئے سوالیہ نشان بن چکا ہے۔