پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، مگر ان قوانین پر عمل در آمد نہ ہونے کے برابر ہے اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک رواں رکھا جاتاہے، آرزو نام کی ا یک 13سالہ عیسائی لڑکی کو مبینہ طور پر حال ہی کراچی میں اس کے گھر کے قریب سے اغواء کیا گیا اور ایک 44سالہ شخص کی جانب سے اس کا جبراً مذہب تبدیل کرواکر مسلمان کیا گیا اور شادی پر مجبور کیا گیا۔
پاکستان میں اس طرح کے واقعات کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے، جس میں معاشی طور پر کمزور غیر مسلم لڑکیوں یا خواتین کو اغواء کر لیا جاتا ہے،اور پھر با آسانی انہیں اسلام قبول کرواکر ان کی شناخت تبدیل کردی جاتی ہے۔ مذہبی اقلیت سے وابستہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برا فعل ہے۔ عورت فاؤنڈیشن کے تعاون سے ساؤتھ ایشیاء پارٹنرشپ پاکستان کی 2015 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر سال کم از کم1000لڑکیوں کو جبراً مذہب تبدیل کرکے مسلمان کیا جاتا ہے۔
یہ صرف محدود تعداد ہے، لیکن حقیقت میں، یہ ایسے خاندانوں کی تعداد بہت زیاد ہے جنہیں اس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تاہم یہ پریشان کن ہے کہ ہمارا ملک اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام رہا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ میڈیا آزاد نہیں ہے۔ میڈیا ہمارے ملک میں بااثر افراد کی گرفت میں ہے،اور جب ایسے واقعات ہوتے ہیں تو میڈیا صرف کچھ دن ہی اس معاملے کو اٹھاتا ہے اور پھر اس بات کو دبا دیا جاتا ہے۔
کچھ نام نہاد مذہبی جماعتیں جو اسلام کے دفاع کا دعویٰ کرتی ہیں،ان جماعتوں کے مطابق یہ سب کچھ ٹھیک ہورہا ہے اور اسلام پھیل رہا ہے، کیا ان کی نمازیں روزے، ان کا حج قبول ہوگا؟ کسی ایک مذہبی شخصیت کی جانب سے جبری مذہب تبدیلی کے خلاف آواز نہیں اٹھائی گئی، آخرکیوں؟ کیونکہ لڑکی نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
اسلام امن کا مذہب ہے اور یہ اپنے پیروکاروں کو پر امن رہنے کے ساتھ ساتھ اور دوسرے عقیدے کے لوگوں کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ مگر کچھ علمائے کرام ہیں جن کی جانب سے اس کی کبھی مذمت نہیں کی گئی، ان علمائے کرام کو بھی سوچنا ہوگا کہ اسلام ہمیں جبری مذہب تبدیل کروانے کی تعلیم نہیں دیتا۔
حکومت کی جانب سے اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لئے کوئی خاص اقدامات اقدامات نہیں کئے گئے، حکومت سندھ نے دو بار جبری طور پر مذہب تبدیل کراکے شادی کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کی،جس میں اقلیتوں کے تحفظ بل میں عدالتی عمل کے لئے رہنما اصول رکھنا شامل ہے، شادیوں پر 18 سال کی عمر کی حد رکھنا اور بہتر ترجیحی عمل کو شروع کرنا شامل ہے۔
سن 2016 میں، اس بل کو متفقہ طور پر سندھ اسمبلی نے منظور کیا تھا، لیکن مذہبی جماعتوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر اس بل کو گورنر کی منظوری مل گئی تو ہم اسمبلی پر دھاوا بول دیں گے، آخر کار اس قانون کو گورنر نے منظور کرنے سے انکار کردیا تھا۔ 2019 میں، ایک نظر ثانی قانون متعارف کرایا گیا، لیکن مذہبی جماعتوں نے ایک بار پھر ہنگامہ کھڑا کردیا۔
پیر میاں عبد الخالق (میاں مٹھو) کے ذریعے دھرنے کا اہتمام کیا گیا، جو سندھ میں کم عمر ہندو لڑکیوں کے زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے معاملات میں ایک مرکزی کردار ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ ان کا گروپ لڑکیوں کو زبردستی مجبور نہیں کرتا، وہ مسلمان مردوں سے پیار کرتی ہیں اور اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرتی ہیں۔
یہ خاص طور پر غیرجانبدار معاشرہ ہے، جہاں چند افراد اپنے اثرو رسوخ کی بنیاد پر اپنی مرضی چلاتے ہیں، ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں، ہمیں اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق دلوانے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ پوری بحث و مباحثے کے بعد صرف یہی ایک سوال باقی رہ گیا ہے کہ‘کیا ہم مسلمان ہیں؟