غذائی عدم تحفظ اور کسان ریلیف پیکیج

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 سیلاب سے ہونے والی تباہی بالخصوص زرعی شعبے میں ہونے والے نقصانات کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے زرعی شعبے کو فروغ دینے کے لیے 1800 ارب روپے کے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔

زرعی شعبے میں ہونے والے وسیع نقصان کے باعث جس طرح کسان امداد طلب نظروں سے ریاست کی طرف دیکھ رہے ہیں، اس کے پیش نظر یہ ایک اچھا اقدام ہے۔

کسانوں کیلئے جس نئے مالیاتی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے وہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 400 ارب روپے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت چھوٹے کسانوں کے قرضے معاف کرے گی جو سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، اس مد میں 10.6 بلین روپے لاگت آئے گی۔

مجوزہ پیکیج میں کئی نئے اقدامات بھی ہیں۔ دیہی علاقوں میں پہلی بار ان نوجوانوں کو 50 ارب روپے کے قرضے فراہم کرنے کا منصوبہ ہے جو زراعت کے شعبے میں روزگار کے خواہاں ہوں گے۔ یہ ایک اہم اقدام ہے، تاہم محض رقم تھمانے کے بجائے ایسے خواہش مند نوجوانوں کو تربیتی پروگراموں کے ذریعے کام کی مکمل آگاہی بھی فراہم کرنی چاہیے۔

اس پیکیج کے تحت دیگر امدادی اقدامات میں ڈائی امونیم فاسفیٹ (ڈی اے پی) کی قیمتوں میں کمی، تصدیق شدہ بیج فراہم کرنا، یوریا اور گندم کی درآمد اور 13 روپے فی یونٹ کی مقررہ قیمت پر بجلی فراہم کرنا شامل ہیں، جو یقیناً قابل ستائش اور بجا طور پر کسان دوست اقدامات کہلانے کے مستحق ہیں۔

وزیر اعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ ملک کی معاشی ترقی کا بہت زیادہ انحصار زرعی شعبے پر ہے، اور اس طرح کی مدد فراہم کرنے سے اس شعبے کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں مدد ملے گی، جو ملک کے بڑھتے ہوئے درآمدی بل کو کم کرنے میں بھی ممد و معاون بنے گا، تاہم یہ ایک بار کا پیکیج نہیں ہونا چاہیے، اس پیکیج کے تحت امداد مستقل بنیادوں پر فراہم کی جانی چاہیے کیونکہ سیلاب متاثرہ اراضی پر پھر سے زرعی پیداوار اور فصلوں کی بوائی اب آسان نہیں رہی ہے، بہت سے موسمی چیلنجز بھی ایک بڑی مشکل کی صورت میں سر اٹھائے سیلاب زدہ کسانوں کے سامنے کھڑے ہیں۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے گندم کی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے روس سے 300,000 میٹرک ٹن گندم کی درآمد کی بھی منظوری دے دی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ اور وسائل کی کمی حقیقی خطرات ہیں، جنہیں سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ایسے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی جس سے زراعت کی ترقی اور کسانوں کی خوشحالی میں مدد ملے۔

Related Posts