سماجی دوری کے اصولوں کی خلاف ورزی مزید مشکلات پیدا کرسکتی ہے

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 کورونا وائرس کی وباء کا سلسلہ نہ رکنے کی وجہ سے دنیا بھر کی حکومتیں خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کو ایک مخمصے کا سامنا ہے، یا تو سخت لاک ڈاؤن نافذ کریں اور معاشی بدحالی کا سامنا کریں یا کاروبار کو چلانے کی اجازت دیں اور اس موذی مرض کو مزید بڑھتا ہوا دیکھیں ۔

وزیر اعظم عمران خان نے بالآخر لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کی اجازت دینے کا فیصلہ کیاہے جس سے چھوٹے کاروبار کو معاشی سرگرمیوں کا موقع ملے گا۔ وزیر اعظم مکمل طور پر لاک ڈاؤن کے مخالف رہے ہیں کیونکہ اس سے مزدور طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔

تاہم یہ نرمیاں اس شرط پر آئیں کہ معاشرتی دوری کے قواعد اور حفاظتی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں گی۔ حکومت نے متنبہ کیا ہے کہ اگر صورتحال مزید خراب ہوئی اور کورونا وائرس کے کیسز قابو سے باہر ہوگئے تو حکومت مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرنے پر مجبور ہوگی۔

چونکہ لاک ڈاؤن کے اصولوں کو آسان بنایا گیا تھا اس لئے لوگ تمام سماجی دوری کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بازاروں میں پہنچ گئے۔ جیسے ہی عید قریب آرہی ہے لوگ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے کپڑے خریدنے کے لئے پریشان ہیں۔ اس سال اداسی اور غیر یقینی صورتحال ہے اور یہاں تک کہ رمضان کا مقدس مہینہ بھی عام ایام جیسا ہی نظر آرہا ہے۔

لاک ڈاؤن میں نرمی کے اعلان پر بہت سے لوگ خوش اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن احتیاط برتنی چاہئے۔ بنیادی احتیاطی تدابیر جیسے ماسک پہننا اور جسمانی فاصلہ برقرار رکھنا انسانی زندگیاں بچانے کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے ۔

دیکھا گیا ہے کہ دکاندار اپنی دوکانوں پر قطاروں اور بھیڑ کے دوران ماسک پہننے ،سماجی فاصلے کے اصولوں اور ہدایات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ملک بھر میں یہ مناظر دیکھے جارہے ہیں،قانون نافذ کرنے والے ادارے لاک ڈاؤن پر عملدرآمدکرانے میں ناکام رہے ہیں۔

سندھ ایک دن میں 1000 سے زائد کیسز ریکارڈ کرنے والا پہلا صوبہ بن گیا جس کے بعد سندھ میں تعداد 10ہزارسے زائد ہو گئی ہے۔ صحت کا نظام مشکلات سے دوچار ہے اور صوبائی حکومت نئے فیلڈ اسپتال قائم کرنے پر غور کر رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ خدشات درست ہوتے نظر آرہے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے پہلے ہی کہا تھا کہ غریب ممالک میں مکمل لاک ڈاؤن اور گھروں تک محدود رہنے کی حکمت عملی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوگی جبکہ پاکستان جیسے معاشرے میں قواعد کو نظرانداز کرنے کا رجحان بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر حفاظتی اقدامات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا توحکومت کے پاس اس سے بھی سخت لاک ڈاؤن   کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوگا جس سے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔

Related Posts