موسمیاتی تبدیلی اور سیلاب

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

یہ کوئی چند دہائیوں پر محیط بات یا نصف صدی کا قصہ نہیں بلکہ دنیا میں گلوبل وارمنگ کا آغاز انیسویں صدی میں قطبِ شمالی کے براعظموں میں 1830 سے 1850 کے دوران ہی ہوگیا تھا اور جیسے ہی ماہرین کو اس کا احساس ہوا، فوری طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات جاری کی جانے لگیں۔

تمہارے ساحلی شہر ڈوب جائیں گے، تم سڑکوں پر بے یارومددگار گھومتے پھرو گے اور کوئی امداد نہیں دے گا۔ تم گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں شدید گرمی، شدید سردی، سمندری و دریائی طوفانوں اور سیلابوں کا سامنا کرو گے۔ اس قسم کی بے شمار وارننگز بے کار چلی گئیں۔

مسئلہ یہ نہیں تھا کہ عالمی برادری کو گلوبل وارمنگ نظر نہیں آرہی تھی، بلکہ اس گلوبل وارمنگ سے اپنی جگہ دیگر، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کا نقصان ہوتا نظر آتا تھا، جن کو عام طور پر تھرڈ ورلڈ کنٹریز کہا جاتا ہے یعنی تیسری دنیا کے لوگ۔

پاکستان میں سیلاب کوئی پہلی بار تو نہیں آیا بلکہ 2010 کا سیلاب وہ حتمی وارننگ تھی جسے پاکستان کے حکمرانوں نے جانتے بوجھتے نظر انداز کیا، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ جب سیلاب آئے گا، اس وقت بھی ہم یا ہمارے بچے حکمران ہوں گے۔

جب 2010 میں سیلاب آیا تو حکمرانوں نے اس کا رخ غریبوں کی بستیوں کی طرف موڑا اور اپنے محل بچا لیے جبکہ کچھ ایسی ہی حکمتِ عملی موجودہ سیلاب کے دوران بھی مبینہ طور پر اپنائی گئی جس پر سندھ حکومت سمیت تمام تر صوبائی حکومتوں کو انکوائری کرنا ہوگی۔

صنعتی انقلاب کے نتیجے میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار ممالک وہ ہیں جو سب سے زیادہ کاربن کے اخراج کے بھی ذمہ دار ہیں جن میں امریکا، چین، بھارت، روس، جاپان اور برازیل جیسے ممالک سرِ فہرست آتے ہیں۔

دوسری جانب عالمی گلوبل وارمنگ سمیت موسمیاتی تبدیلیوں کے دیگر شدید اثرات کے نتائج بھگتنے والے ممالک میں چاڈ، ہیٹی، کینیا، پاکستان اور صومالیہ جیسے ممالک شامل ہیں اور خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک کو سمجھنا ہوگا کہ عالمی برادری گلوبل وارمنگ کے نقصانات کو صدیوں پہلے سمجھ گئی تھی۔

عالمی برادری کو احساس تھا کہ گلوبل وارمنگ بڑھنے سے انہیں کیا کیا خطرات درپیش ہوں گے، تاہم اس کاربن کے اخراج کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے قیمت پرکشش تھی۔ عالمی برادری اربوں ڈالرز کی آمدنی کو چھوڑ کر ترقی پذیر ممالک کی مدد کیوں کرتی؟

اپنی حالیہ رپورٹ میں ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان قدرتی آفات کے اعتبار سے ہائی رسک ممالک میں شامل ہے۔ سیلاب سے ہونے والی تباہی زلزلے سے زیادہ ہوئی۔ ہر سال پاکستان قدرتی آفات کے نتیجے میں 2 ارب ڈالرز کا نقصان بھگتنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

ہرسال قدرتی آفات کے نتیجے میں اوسطاً 863 افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ غربت میں اضافہ ہوتا ہے، سیلاب سے فصلیں، گھر بار اور سازوسامان سب کچھ تباہ ہوجاتا ہے۔ سیلاب پاکستان کے پسماندہ اضلاع کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔

دلچسپ طور پر پاکستان جو مسئلہ عالمی برادری کے سامنے رکھتا ہے، وہ شاذ و نادر ہی حل ہوتا ہے۔ سب سے بڑی مثال مسئلۂ کشمیر ہے۔ پھر بھارت کی جانب سے دریاؤں میں پانی چھوڑنے کا مسئلہ جو آزادی کے 75سال بعد بھی حل نہ ہوسکا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنی معاشی پالیسیوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے غربت، بھوک اور افلاس جیسے مسائل کا تدارک کرے، قرض کی بجائے افرادی قوت پر بھروسہ اور عوامی مسائل، خاص طور پر انصاف کی فراہمی کو ترجیح دے، شاید یہی پاکستانی قوم کے طویل عرصے سے جاری مسائل کا حل بن سکے۔ 

Related Posts