اسرائیل پر ایران کے یکم اکتوبر والے میزائل حملے پر لکھنے میں تاخیر ہوئی۔ ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا۔ یہ صرف ہم نہیں کہہ رہے، وہ ایرانی بھی کہہ رہے ہیں جنہوں نے تہران میں ہونے والے بڑے قتل کے جوابی وار میں بہت تاخیر کی۔ ایرانی تاخیر کے حوالے سے عالمی امور کے ماہرین کی بھانت بھانت کی آراء تھیں۔ خود ایران کے اپنے تجزیہ کار بھی اس کی طرح طرح کی توجیہات پیش کرتے رہے۔
ایرانی تجزیہ کاروں میں پروفیسر محمد مرنڈی بہت اہم ہیں۔ ان کی اہمیت یہ ہے کہ بظاہر وہ کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتے۔ لیکن وہ امریکہ اور یورپین ممالک کے ساتھ بات چیت کرنے والی اس مذاکراتی ٹیم کا بھی حصہ تھے جس کے نتیجے میں ایران ایٹمی پروگرام سے دستبردار ہوا مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ معاہدہ ہی پھاڑ کر پھینک دیا۔ اسی طرح پروفیسر مرنڈی سعودی عرب اور ایران کے مابین ہونے والے بیجنگ معاہدے کا بھی حصہ تھے۔
یہ ایک عام روایت ہے کہ جب کوئی ملک آفیشلی کوئی بات نہ کہنا چاہتا ہو مگر بات پبلک بھی کرنا چاہتا ہو تو اس مقصد کے لئے کچھ “سویلین” افراد کو استعمال کیا جاتا ہے۔ایران میں پروفیسر مرنڈی کی یہی اہمیت ہے۔تہران والے بڑے قتل پر ردعمل میں ایرانی تاخیر کی وجہ پروفیسر مرنڈی یہ بتایا کرتے تھے کہ ایران اسرائیل کے خلاف نفسیاتی جنگ کی حکمت عملی پر ہے۔ ان کی یہ بات ہمیں ہضم نہ ہوئی تھی۔ کیونکہ تاخیر اس حد سے آگے چلی گئی تھی جتنی تاخیر نفسیاتی حربے کے لئے درکار تھی۔
چنانچہ جب لبنان میں بہت بڑا قتل ہوا، تو اس واقعے نے ایران کے لئے بہت بڑی شرمندگی کا سامان کردیا۔ اس قتل کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ اسرائیل ایران کے کسی بھی نفسیاتی دباؤ میں نہیں، وہ تو اپنے اگلے ٹارگٹ سلیکٹ کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قتل کے فوراً بعد اصل حقیقت تہران کے چوک چوراہوں پر آگئی۔ سامنے آنے والی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے یہ بات سمجھ لی جائے کہ ایران کے ریاستی امور میں یہ بندوبست رکھا گیا ہے کہ کچھ امور پر حکومتِ وقت کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ ان امور میں سے ایک ایران کی خارجہ پالیسی بھی ہے۔ خارجہ پالیسی براہ راست رہبر یعنی سید خامنہ ای کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ مگر تہران والا بڑا قتل ہوا ایسے روز تھا جب نئے ایرانی صدرمسعود پازیشکیان نے گھنٹہ بھر قبل ہی حلف اٹھایا تھا۔ اور وہ ہیں بھی اس ایرانی حلقے کے نمائندے جنہیں “اصلاح پسند” کہا جاتا ہے۔ مگر آپ ہمارے ہاں کی اصطلاح میں انہیں لبرل کہہ سکتے ہیں۔
چنانچہ تہران والے بڑے قتل کے واقعے پر رائے سازی میں نئے صدر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اور اسی چیز نے سارا کام خراب کیا۔ لبنان والے قتل کے ساتھ ہی تہران میں جیسے لاوا سا پھٹ پڑا۔ انقلابیوں نے اصلاح پسند صدر کو آڑے ہاتھوں لے لیا کہ اس سب کے ذمہ دار آپ ہیں۔ حقیقت تھی بھی یہی۔ چنانچہ صدر مسعود پازیشکیان کے لئے صورتحال اتنی نازک ہوگئی کہ انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ امریکہ اور مغربی ممالک انہیں یقین دلا رہے تھے کہ ہم جنگ بندی کرا رہے ہیں، اسرائیل غزہ سے نکل جائے گا، آپ اسرائیل پر حملہ نہ کریں۔ مگر ہوا کیا؟ یہی کہ ایران کو لبنان والے اہم ترین پارٹنر سے بھی ہاتھ دھونے پڑ گئے۔اور اسرائیلی فوج جنوبی لبنان کو روندنے بھی آپہنچی۔
ایک مہلک تاخیر کے بعد خدا خدا کرکے ایران نے یکم اکتوبر کو اسرائیل پر میزائل داغ ہی دیئے۔ اس بار بھی امریکہ کو پیشگی آگاہ کردیا گیا مگر حملے سے صرف دو گھنٹے قبل۔سوال یہ ہے کہ امریکہ کو کیوں آگاہ کیا گیا؟ یہ بات ہم اپنے گزشتہ کالموں میں تواتر کے ساتھ واضح کرچکے ہیں کہ ایران کےساتھ جنگ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی خواہش ہے۔ ایران یا خطے کے باقی ممالک اس میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ سب سے اہم یہ کہ روس اور چین بھی اس جنگ کے خلاف ہیں۔ کیونکہ یہ ممالک برکس کی جانب غیر معمولی پیش رفت کر رہے ہیں۔ اور اس حوالے سے 25 اکتوبر کو روس کے شہر کازان میں ایک تاریخی سربراہ کانفرنس ہونے جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسی سربراہ کانفرنس ہے جس سے متعلق عالمی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دنیا کی سیاست کا نقشہ تبدیل کرسکتی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اس کانفرنس کے اہم ترین شرکاء میں سعودی واماراتی ولی عہد اور ایرانی صدر شامل ہیں۔ چنانچہ اسرائیل پر میزائل حملے سے دو گھنٹے قبل امریکہ کو آگاہ کرکے ایران نے درحقیقت یہ پیغام دیا تھا کہ ہم جنگ نہیں چھیڑ رہے، اپنا پرانا ادھار اتار رہے ہیں۔ گویا یہ جنگ سے بچنے کی حکمت عملی کا تسلسل تھا۔
یکم اکتوبر کا ایرانی حملہ بہت غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ آپ ذرا اس کی تیاری کے ہی تین ایام نہیں بلکہ اس کے بعد کے ایک ہفتے کی صرف روسی سرگرمیاں ہی نوٹ کیجئے۔ لبنان والے بڑے قتل کے فوراً بعد روس کی سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری سرگئی شیگو غیر اعلانیہ دورے پر تہران پہنچ گئے تھے۔ صرف یہی نہیں، اس کے اگلے روز روسی وزیر اعظم میخائل میشوستن بھی تہران پہنچ گئے۔ حملے سے ایک روز قبل نصف شب کو خبر بریک ہوئی کہ روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن رات کے آخری پہر اچانک اپنے دفتر پہنچے ہیں۔ یہ آمد غیر معمولی صورتحال کا پتہ دیتی ہے۔
یکم اپریل کو ایران کی جانب سے حملہ ہوگیا تو اس کے اگلے روز روس کے ڈپٹی وزیراعظم بھی تہران پہنچ گئے۔ ان رشین رہنماؤں نے حملے کے بعد بھی کئی روز تہران میں قیام رکھا۔ روسی رہنماؤں کی اس بڑی سرگرمی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ اس کے دور رس اثرات ہیں۔ روس کی اس بڑے لیول کی سرگرمی سے پہلا تاثر کیا ملتا ہے؟ یوں لگتا ہے جیسے ایران نہیں خود روس کو کوئی بڑا خطرہ لاحق ہوگیا ہو۔ کیونکہ اس درجے کی سرگرمی اپنے لئے ہی دکھائی جاتی ہے۔ اور یہی روس کا امریکہ اور اسرائیل دونوں کو واضح پیغام تھا کہ ایران اکیلا نہیں، ہم بھی پوری طرح موجود ہیں۔ پھر ایک اہم چیز یہ کہ حملے کے دوران اور حملے کے بعد کئی روز تک روسی رہنماؤں کی تہران میں موجودگی درحقیقت “ڈھال” تھی۔ جب کسی ملک کے دارالحکومت میں دنیا کے کسی اہم ملک کا صدر یا وزیراعظم موجود ہو تو اس ملک پر حملے کا رسک نہیں لیا جاتا۔ ایسا کرنا اس اہم ملک کو ہی چیلنج کرنے والی غلطی ہوتی ہے جس ملک کا صدر یا وزیر اعظم بطور مہمان وہاں موجود ہو۔ سو اگر آپ کو یاد ہو تو ایرانی میزائلوں کے حملے کے ایک گھنٹے بعد نیتن یاہو نے ڈینگ تو مار دی کہ ہم آج ہی صبح جوابی حملہ کریں گے، مگر ہمت نہ جٹا سکا۔
اگر ہم ایران کے میزائل حملے اور اسرائیل پر اس کے اثرات کا جائزہ لیں تو یہ ہر لحاظ سے دور روس نتائج والا کامیاب حملہ تھا۔ ایران نے اس حملے کے لئے دو سو کے لگ بھگ میزائل استعمال کئے۔ مگر کوئی شک نہیں کہ ان میں سے اکثر ڈیکوئے تھے۔ عام قارئین کی سہولت کے لئے بتاتے چلیں کہ اگر کوئی ملک کسی ایسے ملک پر میزائل حملہ کرنے جا رہا ہو جس کے پاس ایئرڈیفنس سسٹم موجود ہو تو انٹیلی جنس ادارے یہ خبر پہلے ہی حاصل کرچکے ہوتے ہیں کہ ٹارگٹ ملک کا ایئرڈیفنس سسٹم اپنے دفاع کے لئے کتنے راکٹ یا میزائل فائر کرنے کی سکت رکھتا ہے؟ فرض کیجئے حملے کے لئے 30 میزائل درکار ہیں، مگر ٹارگٹ ملک کا ایئرڈیفنس سسٹم 100 راکٹ و میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اب حملے کے لئے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ڈیکوئے داغے جائیں گے اور ان کے پیچھے پیچھے 30 اصل میزائل جائیں گے۔ ڈیکوئے کو آپ سادہ زبان میں کھلونا میزائل سمجھ لیجئے۔ جو باقاعدہ پرواز کرتا ہوا ہدف تک آتا ہے، ریڈار پر بطور میزائل ہی شو ہوتا ہے مگر اس کا مقصد بس یہ ہوتا ہے کہ اصل وارہیڈز کے پہنچنے سے قبل یہ دشمن کا ایئرڈیفنس سسٹم خود پر خرچ کروا کر فارغ کردے۔ ایک ڈیکوئے میزائل 25 ہزار ڈالر تک کا ہوتا ہے، یعنی نہایت سستا۔ مگر دشمن کے یہ نہایت مہنگے اینٹی ایئرڈیفنس میزائل ضائع کروا دیتا ہے۔ اسرائیل کا یوڈ سلنگ میزائل ایک ملین جبکہ ایرو سیریز میں استعمال ہونے والا میزائل دو ملین ڈالر کا ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ سستا سا ڈیکوئے کس قدر کارآمد شے ہے۔
اسرائیل میں خبروں کے بلیک آؤٹ کا قانون پوری سختی سے نافذ ہے۔ حکومتی منظوری کے بغیر عسکری امور سے متعلق خبر، تصویر یا ویڈیو جاری کرنےکی کسی کو بھی اجازت نہیں۔ چنانچہ اس بلیک آؤٹ کا فائدہ اٹھا کر شروع میں امریکی صدر سمیت سب نے یہ دعویٰ کردیا کہ ایران کا حملہ پوری طرح ناکام بنادیا گیا ہے۔ صدر بائیڈن نے تو اس حوالے سے امریکی اور اسرائیلی فوج کو خراجِ تحسین بھی پیش کر ڈالا۔ مگر ایک بڑی مصیبت یہ کھڑی ہوگئی کہ اسرائیل میں بڑی تعداد میں فلسطینی بھی آباد ہیں۔ انہوں نے حملے کے پہلے ہی گھنٹے کے دوران ایسی ویڈیوز لیک کردیں جن میں ایرانی میزائل اسرائیلی ایئر بیسز پر برستے نظر آ رہے تھے۔
یوں یہ جھوٹ زیادہ دیر چل نہ سکا۔ بالآخر بڑے امریکی اخبارات کو اعتراف کرنا پڑا کہ ایرانی حملہ مہلک تھا۔ یوں باقی مغربی میڈیا بھی اب تسلیم کرنے لگا ہے کہ کم از کم 30 میزائلوں نے پوری کامیابی سے اہداف کو نشانہ بنایا۔ اور ان سے بڑے پیمانے پر نقصان بھی ہوا۔اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہی ہے کہ اسرائیل کے پاس ایرانی میزائلوں سے بچنے کے لئے کوئی مؤثر ڈھال موجود نہیں۔ اگر وہ دو گھنٹے قبل بتا کر بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے تو اسرائیل کا کوئی کونہ اور انچ ایسا نہیں جو محفوظ ہو۔ اس کے آئرن ڈوم، ڈیوڈ سلنگ اور ایرو سیریز کسی کام کے نہیں۔ (جاری ہے)