پاکستان سمیت دنیا کے تمام ایسے ممالک میں جہاں لاقانونیت کی وباء جڑ پکڑ چکی ہے وہاں سب سے زیادہ تعلیم اور اس کے بعد صحت کے شعبے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
ملک دشمن عناصر یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر کسی قوم کو ناکارہ کرنا ہے تو سب سے پہلا وار اس کی تعلیم اور دوسرا اس کی صحت پر کرنا چاہئے۔ اگر قوم ہی بیمار ہوگی تو حملے کا جواب کون دے گا؟
یقین نہ آئے تو پاکستان میں تعلیم کی بد ترین حالت دیکھئے جہاں گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ اسکول تعلیم کے نظام کا منہ چڑا رہے ہیں۔ کتنے ہی اسکولز اور کالجز وڈیروں اور چوہدریوں کی اوطاقوں اور بھینس کے باڑوں میں تبدیل ہو گئے۔
پھر ایک نظر شعبۂ صحت پر بھی ڈال لیجئے۔ متعدد شہروں میں طبی سہولیات کا کس قدر فقدان ہے اور کتنے ہی طبی شعبہ جات ایسے ہیں جہاں مریض ہی مریض موجود ہیں اور علاج کرنے والا دور دور تک دستیاب نہیں۔
تعلیم کی حالتِ زار یہ ہے کہ اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کھلی ہیں اور تعلیم کا نام و نشان تک نہیں۔ اساتذہ کو ایسے شعبوں کا انچارج بنا دیا جاتا ہے جن کی وہ الف بے سے بھی واقف نہ ہوں۔
گزشتہ روز بلوچستان کے علاقے پشین میں پولیو مہم کے دوسرے دن پولیو ٹیم پر نامعلوم افراد کی فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں ٹیم کی حفاظت پر مامور ہیڈ کانسٹیبل محمد ہاشم شہید ہوگیا۔
ایک طرف پولیس اہلکار کی شہادت ہمارے سکیورٹی اداروں کیلئے ایک چیلنج ہے تو دوسری جانب پولیو ٹیم پر کی گئی فائرنگ سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ عناصر پولیو ویکسینیشن کے سخت خلاف ہیں۔
اگر یوٹیوب یا دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر انسدادِ پولیو کے قطروں کے خلاف چلائی جانے والی مہمات اور نشر کردہ مواد کا جائزہ لیا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا پولیو کے قطروں سے قوم کو بے اولاد بھی کیا جاسکتا ہے؟
کچھ اسی قسم کے دیگر مضحکہ خیز سوالات بھی ایسی سوشل میڈیا مہمات کے ضمن میں جنم لیتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ بے شمار لوگ آج بھی اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا پسند نہیں کرتے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک کو پولیو فری ممالک قرار نہیں دیا جاسکا اور بے شمار ممالک پولیو فری ہونے کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری قوم بھی ہوش کے ناخن لے۔
یہاں یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ سکیورٹی اداروں کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا جیسے علاقوں میں خاص طور پر پولیو ٹیمز کیلئے کیے جانے والے حفاظتی انتظامات کو دوچند کرنا ہوگا تاکہ صحت کا عملہ اپنا کام بلا خوف و خطر کرسکے۔