اسلام آباد میں وفاقی سرکاری ملازمین کا احتجاج اور پولیس پر پتھراؤ، ملک کہاں جارہا ہے؟

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
اسلام آباد میں وفاقی سرکاری ملازمین کا احتجاج اور پولیس پر پتھراؤ، ملک کہاں جارہا ہے؟
اسلام آباد میں وفاقی سرکاری ملازمین کا احتجاج اور پولیس پر پتھراؤ، ملک کہاں جارہا ہے؟

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آج وفاق کے زیرِ انتظام سرکاری اداروں میں ملازمت کرنے والے شہریوں نے تنخواہوں میں اضافے کیلئے احتجاج کیا جس کے دوران پولیس پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔

اسلام آباد میں آج اس احتجاج کے دوران اور بعد میں کیا ہوا؟ وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کیا کہا؟ اور من حیث القوم احتجاج کرتے ہوئے اور حکمران کی حیثیت سے عوام کو ان کا حق دیتے ہوئے رویہ کیا ہونا چاہئے؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

سرکاری ملازمین کا احتجاج

شہرِ اقتدار اسلام آباد آج میدانِ جنگ بن گیا کیونکہ پولیس اور تنخواہوں میں اضافے کیلئے احتجاج کرنے والے سرکاری ملازمین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ ملازمین نے ریلی نکالی اور پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دینے کیلئے بھی سرتوڑ کوشش کی۔

وزیرِ اعظم عمران خان کی سربراہی میں چلنے والی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف خوب نعرے بازی ہوئی۔ اس دوران پولیس سرکاری ملازمین پر ٹوٹ پڑی جس نے ملازمین پر آنسو گیس کی شدید شیلنگ کی، لیکن دوسری جانب ملازمین بھی منتشر نہیں ہوئے۔

ملازمین نے آنسو گیس کی شیلنگ کا جواب پتھراؤ سے دیا۔ سیکرٹریٹ چوک میں خوب لڑائی ہوئی۔ مظاہرہ کرنے والے درجنوں سرکاری ملازمین اور رہنماء حراست میں لے لیے گئے۔

شبلی فراز کی آمد

وزیرِ اطلاعات شبلی فراز اپنی گاڑی میں اسی علاقے سے گزرنے لگے تو کابینہ ڈویژن کے ملازمین نے گاڑی روک کر مطالبہ کیا کہ گرفتار کیے گئے رہنماؤں کو فوری رہا کیا جائے۔

یہی نہیں، بلکہ فیڈرل ڈائریکٹریٹ ایجوکیشن ملازمین نے تو سری نگر مین ہائی وے دونوں طرف سے ٹریفک کیلئے بند کردی۔ اسلام آباد میں شدید ٹریفک جام ہوگیا۔شہریون کو آمدورفت میں خاصی مشکلات کا سامنا رہا۔ اس دوران سرکاری امور ٹھپ ہو کر رہ گئے۔

مظاہرے کی وجہ؟

ایسا نہیں کہ حکومت نے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا تاہم مظاہرے کی اصل وجہ یہ تھی کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ توقع سے کم کیا گیا۔ گریڈ 1 سے 16 تک تنخواہوں میں 24 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی۔

تاہم وفاقی ملازمین نے مطالبہ کیا کہ تنخواہوں میں 40 فیصد تک اضافہ کیا جائے اور یہ اضافہ صرف وفاق تک محدود نہ ہو بلکہ صوبائی سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی 40 فیصد کی شرح سے ہی بڑھائی جائیں۔

دوسری جانب وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ صوبائی ملازمین 18ویں ترمیم کے اطلاق کے ساتھ ہی ہمارے دائرۂ اختیار سے باہر ہیں۔ کابینہ ڈویژن، سیکرٹریٹ، کوہسار کمپلیکس اور تمام وزارتوں کے سرکاری ملازمین دفتر نہیں گئے اور تمام تر سرکاری کام تعطل کا شکار رہے۔ 

شیخ رشید احمد کا اعلان

جب سرکاری ملازمین احتجاج کر رہے تھے، وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد بھی تمام تر صورتحال کو بغور دیکھ رہے تھے۔ شیخ رشید احمد نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ ہم وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں فوری طور پر 40 فیصد اضافہ کر رہے ہیں۔

وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ 95 فیصد ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ میڈیا کو بھی بلایا گیا تاکہ نوٹیفیکیشن بھی جاری ہوسکے۔ 16 گریڈ تک کے ملازمین کے حوالے سے بات چیت جاری تھی کہ ملازمین کی طرف سے 22 گریڈ تک تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ سامنے آگیا۔

انہوں نے کہا کہ 17 سے 22 گریڈ کے درمیان بہت بڑا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ مرکزی ملازمین 95 فیصد ہیں۔ 3 لاکھ 73 ہزار افراد کی تنخواہیں اوسطاً 40 فیصد تک بڑھا دی جائیں گی لیکن مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ 5 فیصد مزید کی بھی تنخواہیں بڑھائی جائیں۔ یہ اربوں روپے کا معاملہ ہے جبکہ ہم صوبوں کو اس حوالے سے حکم نہیں دے سکتے۔ 

گزشتہ روز کیا ہوا تھا؟

کابینہ وفاقی سیکرٹریٹ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے گزشتہ روز کسی حتمی فیصلے تک نہ پہنچ سکی۔ ملازمین کے نمائندوں اور شیخ رشید کے مابین فالو اپ میٹنگ بھی ہوئی جو بے نتیجہ ثابت ہوئی۔

سرکاری ملازمین نے اس کے بعد سے ہی ہڑتال اور پی ڈی ایم کی حمایت سے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔ ملازمین کی بڑی تعداد نیشنل پریس کلب کے باہر اور ڈی چوک پر بھی جمع ہوگئی۔

شہری انتظامیہ نے خبردار کیا کہ اگر مظاہرین نے املاک کو آگ لگانے یا گاڑیاں توڑنے کی کوشش کی تو ان کے خلاف قانون حرکت میں آجائے گا۔ سڑکیں بند کرے پر عدالتِ عظمیٰ کا حکم موجود ہے۔ مظاہرین کو احتجاج کیلئے جگہ دینے کی پیشکش کرچکے ہیں۔بعد ازاں مظاہرین سے مذاکرات ہوئے اور سیکرٹریٹ میں آمدورفت کے متبادل راستے کھول دئیے گئے۔ 

پیپلز پارٹی کا مؤقف 

پی پی پی کی سینئر رہنما و سینیٹر شیری رحمان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر آج اپنے پیغام میں کہا کہ اسلام آباد میدانِ جنگ بن گیا ہے۔ ملازمین پر امن احتجاج کر رہے تھے اور ان پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی جو قابلِ مذمت ہے۔

شیری رحمان نے کہا کہ پی پی پی نے ملازمین کی تنخواہیں 125 فیصد بڑھائیں۔ تباہی سرکار آئے دن مہنگائی میں اضافہ کرتی ہے لیکن سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔ کیا یہ نیا پاکستان ہے؟

مریم نواز کی رائے 

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ سرکاری ملازمین پر تشدد، آنسو گیس اور گرفتاریاں جعلی حکومت کے اوچھے اور ظالمانہ ہتھکنڈے قرار دئیے جاسکتے ہیں۔

ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی قربانیوں سے پاکستان میں ظالم، عوام دشمن، ووٹ چور، کمیشن خور حکومت کے خاتمے کا اعلان سامنے آیا ہے۔ ظالم حکومت نے 3 سال میں سرکاری ملازمین اور عوام کو مہنگائی میں پیس کر رکھ دیا۔

انہوں نے پی ٹی آئی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلی حکومت ہے جس نے 4 گنا مہنگائی کے باوجود 3 سال میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 1 روپے کا اضافہ نہیں کیا۔ 

وزراء کی مشترکہ پریس کانفرنس 

مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ، وزیرِ دفاع اور وزیرِ پارلیمانی امور نے سرکاری ملازمین کے احتجاج پر تفصیلی بیانات دئیے۔

اس حوالے سے وزیرِ دفاع پرویز خٹک نے کہا کہ وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 60 فیصد فرق آرہا ہے۔ اسپیشل الاؤنس کی مد میں جون تک رقم دینا چاہتے تھے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ 60 فیصد بنیادی تنخواہ میں اضافہ کیا جائے۔ ملکی حالات اور خزانہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔

پرویز خٹک نے کہا کہ جون تک ملازمین متعلقہ کمیشن کی سفارشات کا انتظار کریں۔ ہم صرف ایک حد تک تعاون کرسکتے ہیں۔ بات کرنے کو تیار ہیں۔ صوبائی حکومتوں کے ملازمین بھی یہاں آگئے۔ انہیں بھی 18ویں ترمیم سے آگاہ کردیا ہے۔صوبائی معاملات میں مداخلت آئین کی خلاف ورزی ہے۔ 

ملازمین احتجاج پر گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ مظاہرین حکومت اور ریاست کے ذمہ دار شہری ہیں۔ ہمیں بھی اتنی ہی پریشانی ہے جتنی انہیں ہے۔ ہم 4 ماہ کا ریلیف دینے کو تیار ہیں۔ ملازمین ہماری حدود کا بھی خیال رکھیں۔

گفتگو کے دوران وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ 22 گریڈ کی بات نہیں ہوئی۔ 16 کی ہوئی تھی۔ شک یہ تھا کہ 22 والے ان احتجاجی ملازمین کے پیچھے ہیں۔ 25 فیصد تک الاؤنس بڑھا دیں گے لیکن احتجاج میں سیاسی پارٹیاں شامل ہونے پر ملازمین نقصان میں رہیں گے۔ حکومت چاہتی ہے معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو۔ صوبوں کو کہنے اور ملازمین کی مدد کیلئے ساتھ جانے کیلئے بھی تیار ہیں۔