مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کی دنیا کی پہلی یونیورسٹی کی بانی ایک مسلم خاتون فاطمہ الفہری تھیں۔ انہوں نے مراکش کے شہر فیز میں ایک مسجد کی بیناد رکھی جو آگے چل کر مشہور و معروف القراویین یونیورسٹی بنی۔
محترمہ فاطمہ الفہری لگ بھگ سن 800 عیسوی میں موجودہ تیونس کے شہر کائروان میں پیدا ہویئں۔ ان کے خاندان نے کائروان سے بڑی تعداد میں ہجرت کرنے والوں کے ہمراہ نقل مکانی کی، اگرچہ فاطمہ الفہری کے اہلِ خانہ زیادہ دولت مند نہ تھے لیکن ان کے والد محمد الفہری ایک کامیاب تاجر بن گئے۔
فاطمہ الفہری اور ان کی بہن مریم اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں جنہوں نے اسلامی فقہ و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ دونوں نے فیز میں مساجد قائم کیں۔ فاطمہ الفہری نے الراویین نامی ادارہ قائم کیا جبکہ مریم نے الاندلس کی بنیاد رکھی۔
ایک مختصر کامیابی کے بعد فاطمہ الفہری کے شوہر، والد اور بھائی کی وفات ہوئی جن کی وراثت فاطمہ اور ان کی بہن مریم کے حصے میں آئی جس سے وہ مالی طور پر آزاد اور خودمختار بن گئیں تاہم دونوں بہنیں اپنی شان و شوکت بڑھانے کیلئے رقم کا استعمال نہیں کرتی تھیں بلکہ انہوں نے معاشرے کی مدد کرنے کیلئے پیسے کا استعمال کیا۔
دونوں بہنوں نے ایک مقامی مسجد کی تعمیرِ نو کیلئے اپنی وراثت کا ایک قابلِ قدر حصہ خرچ کرنے کا فیصلہ کیا جو ان کے والد کے نام پر یادگاری چندے کی صورت میں اس معاشرے کیلئے بہت چھوٹی تھی، لیکن اس منصوبے کو مکمل کرنے کے بعد بھی فاطمہ اپنی باقی وراثت کے بہترین استعمال کے طور طریقوں پر کافی سوچ بچار کرتی رہیں۔
بالآخر فاطمہ الفہری نے ایک مسجد بنانے کا فیصلہ کیا جو ان کیلئے خیر کا مستقل وسیلہ بنی اور اسی وجہ سے مشہور مسجد القراویین کی تعمیر کا آغاز ہوا جس کا نام انہوں نے اپنے پیدائشی شہر کے نام کی نسبت سے رکھا۔ فاطمہ الفہری نے مسجد کی تعمیر کی نگرانی خود کی اور تعمیراتی عمل کو مہارت سے آگے بڑھایا جو تاریخ میں ان کی غیر معمولی محنت اور لگن کا ثبوت ہے۔
اس موقعے پر فاطمہ الفہری نے یہ بات یقینی بنائی کہ مسجد میں ایک لائبریری بھی تعمیر کی جائے جسے عبادت کے علاوہ تعلیم حاصل کرنے کا مرکز قرار دیا جاسکے۔ مسجد کو فاطمہ کے علم و دانش کی دولت سے بہرہ ور ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ اس عالی شان مسجد کا دنیا کے تمام خطوں سے تعلق رکھنے والے معروف مفکرین نے دورہ کیا اور مذکورہ لائبریری میں اپنے علم و فن کا بھی حصہ ڈالتے گئے جس سے لائبریری بے مثال ہوگئی۔
عبادت کے دوران بھی فاطمہ الفہری انتہائی متقی اور پرہیز گار رہتیں اور رمضان المبارک کے دوران سن 859 عیسوی بمطابق 245 ہجری میں فاطمہ الفہری روزے رکھ رہی تھیں، جب تک کہ یہ تعمیری منصوبہ تقریباً 2 سال بعد تک مکمل نہ ہوگیا۔ اسی موقعے پر فاطمہ الفہری نے شکرانے کے نوافل ادا کیے جبکہ انہوں نے مسجد کی تعمیر کیلئے پوری تندہی سے کام کیا تھا۔
آج مسجد القراویین شمالی افریقہ کی سب سے بڑی مسجد ہے اور اس یونیورسٹی کی بنیاد جو بحیرۂ روم میں قرونِ وسطیٰ کی چھ دہائیوں کے بعد جدید ترین تعلیم کا سب سے اہم مرکز رہا۔ سن 1818ء میں یہ مسجد اس خطے کی ایک سرکاری مسجد بن گئی جہاں جمعہ کی نماز میں حاکمِ وقت نمازیوں کے ہمراہ عبادت کیا کرتا تھا۔
القراویین یونیورسٹی نے گزشتہ برسوں میں متعدد قابلِ ذکر طلباء کو پیدا کیا جن میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ گیربرٹ آف اوریلیک اسی یونیورسٹی کا طالبِ علم تھا جو بعد میں پاپ سلویسٹر دوم بنا اور اس نے عربی ہندسوں اور یورپ میں صفر کا تصور متعارف کرایا۔ یونیورسٹی کے ممتاز طلباء میں ایک یہودی معالج اور فلسفی میمونائڈس بھی شامل ہے۔ میمونائڈس قرونِ وسطیٰ کے بہت ہی قابلِ فہم اور بااثر تورات کے عالم تھے جنہوں نے یہودی مذہب کے 13 اصول تشکیل دئیے۔
یونیورسٹی کے ممتاز طلباء میں سے ایک ابن الحاج الفسی بھی شامل ہیں جو اپنے زمانے میں مالکی مکتبۂ فکر کے ممتاز عالمِ دین تھے اور انہوں نے کچھ عرصے تک یونیورسٹی میں تعلیم بھی دی۔ دیگر مشہور مسلم علمائے دین میں سابق مالکی فقیہ اور صوفی فلسفی ابن العربی اور معروف مؤرخ اور فلسفی ابنِ خلدون بھی شامل ہیں۔
چودھویں صدی عیسوی تک یونیورسٹی میں القراوینی لائبریری موجود رہی جس میں دنیا کی قدیم ترین کتب رکھی گئی تھیں جس میں اسلام کے قیمتی ترین نسخے محفوظ کیے گئے۔ امام مالک کی مشہورومعروف کتاب مؤطا، ابن اسحاق کی سیر، ابنِ خلدون کی کتاب الاثر کا ایک ابتدائی نسخہ اور سلطان احمد الاہر نے سن 1602ء میں ادارے کو قرآنِ پاک کا جو نسخہ تحفتاً دیا، وہ سب شامل ہیں۔ منصور الس حال ہی میں لائبریری میں دوبارہ دریاف کی گئی اور یہ کتاب ایک سند ہے جو ہرنوں سے متعلق ہے اور بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ میڈیکل ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا سب سے قدیم نسخہ ہے۔
آج القراویین یونیورسٹی کی تشکیل کے بعد سے تقریباً 12 صدیاں گزر چکی ہیں اور آج تک مختلف شعبوں کے طلباء اس معزز و محترم ادارے سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں جو فاطمہ الفہری کی زندہ وراثت کی نمائندگی کرتی ہے جو اسلامی روایات سیکھنے اور اسکالرشپ کیلئے وقف تھی اور اللہ کی خاطر انسانیت کی خدمت کیلئے کوشاں رہی۔
دنیا کے مؤقر ترین اداروں سے فارغ التحصیل علماء جہاں سے تعلیم یافتہ ہوں، ان پر فخر کرتے ہیں، نیز ہماری ملازمتیں، آمدنی اور مستقبل ایسے اداروں سے جڑا ہوتا ہے اور پہلی یونیورسٹی کی تشکیل کرنے والی مسلم خاتون فاطمہ الفہری کی تعمیر کردہ یونیورسٹی نے ایسے تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی۔فاطمہ الفہری کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔