فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا تین روزہ اجلاس گزشتہ روز ختم ہوا جس کے دوران پاکستان کو فروری تک گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ سامنے آیا جبکہ آج وزارتِ خزانہ نے بھی اِسی حوالے سے ایک اہم اعلامیہ جاری کردیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف اہداف پر پاکستان کی مشکلات کب ختم ہوں گی اور ہم سکھ کا سانس لے سکیں گے؟ کیا پاکستان ہمیشہ گرے لسٹ میں ہی رہے گا؟ آئیے ایسے ہی تمام سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف اور اس کے اہداف کیا ہیں؟
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی ایف اے ٹی ایف سن 1989ء میں قائم کیا گیا جس کے قیام کا مقصد عالمی مالی نظام کو خطرات سے محفوظ رکھنا ہے جن میں دہشت گردی، ناجائز مال و دولت کو جائز کرنا اور منی لانڈرنگ جیسے عوامل شامل ہیں۔
عالمی سطح پر ایف اے ٹی ایف کے اراکین میں امریکا، برطانیہ، چین اور بھارت سمیت 35 ممالک شامل ہیں، تاہم پاکستان کو اس کی رکنیت تاحال حاصل نہیں ہوئی۔
گزشتہ 20 برس سے ایف اے ٹی ایف نے ایک نئی حکمتِ عملی شروع کر رکھی ہے جس کے تحت فہرست جاری کرکے مختلف ممالک کو بلیک لسٹ اور گرے لسٹ کیا جاتا ہے جس کا مقصد ایسے ممالک پر پابندیاں لگا کر ان سے ٹیرر فنانسنگ اور منی لانڈرنگ جیسے عوامل کو روکنے کیلئے اقدامات پر مجبور کرنا ہے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ 16 ممالک کو گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے جبکہ ہمسایہ ملک ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک بلیک لسٹ ہوچکے ہیں۔ پاکستان گرے لسٹ میں موجود ہے جس نے اگر ایف اے ٹی ایف اہداف پورے نہ کیے تو خاکم بدہن، ہم بھی بلیک لسٹ ہوسکتے ہیں۔
اہداف پورے نہ کیے تو کیا ہوسکتا ہے؟
جو ممالک گرے لسٹ میں موجود رہتے ہیں ان پر معاشی پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں لیکن بلیک لسٹ ممالک پر پابندیاں ناقابلِ برداشت بھی ہوسکتی ہیں۔
مثال کے طور پر ایران پر یہ پابندی عائد ہے کہ وہ تیل زمین سے نکال تو سکتا ہے لیکن اسے عالمی منڈی میں فروخت نہیں کرسکتا، نتیجتاً اسے یہ تیل غیر قانونی طور پر سستے داموں فروخت کرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف سمیت دیگر مالیاتی ادارے گرے لسٹ یا بلیک لسٹ ممالک کو قرض نہیں دیتے اور مختلف قسم کی معاشی پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں۔
پاکستان گرے لسٹ میں شامل کیسے ہوا؟
آج سے 2 سال قبل جون میں پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کرتے ہوئے عالمی واچ ڈاگ نے پاکستان کوگزشتہ برس اکتوبر تک کا وقت دیا۔ یہ وقت بعد میں 4 مہینے تک بڑھایا بھی گیا۔
منی لانڈرنگ ایک بڑا سنگین جرم ہے جبکہ دہشت گردوں کی مالی امداد ایک عالمی جرم ہے جس کی تحقیقات کے دوران پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور سیاستدانوں پر منی لانڈرنگ کے الزامات سمیت تمام تر حقائق کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔
حکومتِ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کو یقین دلایا کہ ہم 4 مہینوں کے اندر اندر قانون سازی کر لیں گے اور ایک مؤثر نظام بھی تیار کیا جائے گا تاکہ دہشت گردوں کی مالی امداد اور منی لانڈرنگ کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔
سفارشات پر عملدرآمد کی صورتحال
قانون سازی بڑا پیچیدہ عمل ہوتا ہے جس پر وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کےتحت عمل درآمد حیرت انگیز دکھائی دیتا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتیں بظاہر تو ایف اے ٹی ایف سے متعلق قوانین منظور ہونے پر بہت واویلا کرتی ہیں لیکن وہ قوانین ایوان میں اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود منظور بھی ہوجاتے ہیں۔
اگر ہم ایف اے ٹی ایف سفارشات ، نکات یا اہداف کا جائزہ لیں تو پاکستان کو 27 اہداف دئیے گئے تھے کہ ان پر عمل درآمد کرنے سے پاکستان گرے لسٹ سے نکل جائے گا تاہم پاکستان کی طرف سے عملدرآمد کی رفتار ابتدا میں کافی سست رہی۔
رواں برس فروری تک پاکستان نے 27 میں سے 14 نکات پر عمل کیا جس کے بعد ایف اے ٹی ایف نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کو 4 ماہ مزید دے دئیے جائیں۔
حکومتی اعلامیے میں عوام کیلئے دعوے
قومی وزارتِ خزانہ کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے کو دیکھئے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان گرے لسٹ سے فروری 2021ء سے بھی پہلے نکل جائے گا کیونکہ حکومت کا کہنا یہ ہے کہ ہم نے بچ رہنے والے 6 نکات پر بھی کسی نہ کسی حد تک ضرور عمل کیا ہے اور آئندہ برس فروری تک ان پر اہم پیش رفت ہوگی۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک پاکستان کی کارکردگی کے معترف ہیں کیونکہ حکومت نے حوالہ ہنڈی کے خلاف زبردست ایکشن لیا اور کرنسی اسمگلنگ مکمل طور پر روک دی۔
حکومت نے دعویٰ کیا کہ ہم نے دہشت گردوں کی مالی معاونت بھی مکمل طور پر روکی اور منی لانڈرنگ کے خلاف بھی اقدامات اٹھائے، قانون سازی بہتر کی اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں خاطر خواہ ترامیم کیں۔
حقائق کیا ہیں؟
تمام تر دعووں کے برعکس حقائق یہ کہتے ہیں کہ پاکستان صرف گرے لسٹ میں ہی نہیں بلکہ بلیک لسٹ ہونے کے خطرات سے بھی دوچارہے کیونکہ 11 اکتوبر کو اے پی جی کی ایم ای آر رپورٹ میں پاکستان کو انہانسڈ فالو اپ لسٹ میں شامل کر دیا گیا۔
یہ وہ لسٹ ہوتی ہے جس میں شامل ممالک کی مانیٹرنگ سخت کردی جاتی ہے یعنی ایسے ممالک کڑی نگرانی کی زد پر ہوتے ہیں۔ رپورٹ مرتب کرنے والوں کے مطابق پاکستان منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ روکنے میں کچھ خاص کامیاب نہیں ہوا۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کیلئے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ وہ اِس لسٹ سے نکلے اور معمولی مانیٹرنگ پر آئے جس کے بعد ہی وہ گرے لسٹ سے باہر آسکے گا۔21 سے 23 اکتوبر تک ایف اے ٹی ایف اجلاس میں بھی انہاسڈ فا
کیا ہم ہمیشہ گرے لسٹ میں رہیں گے؟
گرے لسٹ میں رہنا یا نہ رہنا حکومتی کارکردگی پر منحصر ہے۔ یہاں قانون سازی تو کر لی جاتی ہے لیکن عملدرآمد کی صورتحال بڑی پیچیدہ ہوتی ہے۔
منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ روکنا خود حکومتِ پاکستان کے مفاد میں ہے کیونکہ اگر یہ دو چیزیں رک جائیں تو پاکستان کی معیشت بے حد مستحکم ہوسکتی ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان نے پہلے بھی بے شمار مواقع پر زبردست کارکردگی دکھائی، وزیرِ اعظم عمران خان کی سربراہی میں موجودہ وفاقی حکومت نے کئی قابلِ تعریف کارنامے سرانجام دئیے۔ اگر حکومت نے سنجیدگی سے ٹیرر فنانسنگ اور منی لانڈرنگ کو روکنے پر کام تیز کردیا تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ فروری 2021ء تک ہم گرے لسٹ سے نکل جائیں گے۔