نظام انصاف کی ناکامی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نظام انصاف کسی بھی ملک اور معاشرے کا وجود قائم رکھنے کیلئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ عدل و انصاف ہی ہے جو ملک، قوم اور معاشرے کی تمام اکائیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے اور انہیں ایک ساتھ چلنے کیلئے طاقت، توانائی اور جواز فراہم کرتا ہے۔

عدل اور انصاف کے ساتھ چلا جائے تو گھر بھی محفوظ رہتے ہیں، معاشرہ اور قوم کے اجتماعی وجود کا تانا بانا بھی قائم رہتا ہے اور اگر حالات اس کے بر عکس ہو جائیں اور انصاف کی جگہ زیادتی، نا انصافی، برتاو میں فرق اور اونچ نیچ در آئے تو گھر بھی سلامت نہیں رہتے، ملک، قوم اور معاشرے کے وجود کیلئے بھی سنگین خطرات جنم لیتے ہیں۔

بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو وطن عزیز پاکستان بھی انصاف اور عدل کے فقدان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ نگران وزیر اعظم جناب انوار الحق کاکڑ ایک صاحب فکر اور دانشور وزیر اعظم اور سیاسی رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی فکر و دانش سے استفادے کیلئے تواتر کے ساتھ تعلیم گاہوں میں گفت و شنید کی سرگرمیاں ہو رہی ہیں، جن میں بہت سے حوالوں سے ان کی اصولی اور نپی تلی گفتگو سنجیدہ توجہ کے ساتھ سنی جاتی ہے اور اس پر مختلف فورمز پر بحث و مباحثہ بھی ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں ایسی ہی ایک تقریب میں انہوں نے ملک کے نظام عدل کی کارکردگی سے متعلق ایک سوال پر جو گفتگو کی ہے، وہ ملک کے نظام عدل پر ایسا تبصرہ ہے جو آئینے کی طرح نظام عدل کی ناکامیوں کو واضح کر دیتا ہے اور ساتھ ہی ان کی یہ گفتگو اس بات کی بھی مظہر ہے کہ نظام عدل کی خراب کارکردگی سے صرف عام آدمی مایوس نہیں، اس کی نابکاری، خامیاں اور کمزوریاں ”خواص“ کیلئے بھی پریشان کن ہیں اور ہر شخص خواہ وہ عام آدمی ہو یا خاص، اگر وہ ملک سے مخلص ہے تو اس کیلئے ملکی نظام عدل کی اس کارکردگی پر اسی طرح پریشان اور فکر مند ہونا چاہیے۔
کسی بھی معاشرے اور ملک و قوم میں عدل اور انصاف کے دو اہم دائرے ہوتے ہیں، ایک ریاست کے عوام سے تعلق اور برتاو کا دائرہ ہے اور دوسرا آئین اور دستور کے تحت باقاعدہ ڈھالے اور تشکیل دیے گئے نظام عدل کا دائرہ ہے۔ بد قسمتی سے ملک میں عدل، انصاف اور یکساں اور اصولی تعامل دونوں ہی دائروں میں بری طرح کمزوری اور خستہ حالی کا شکار ہے۔

اگر نظام عدل عام آدمی اور اپنی فریاد لیکر داد رسی کیلئے عدل کی زنجیر ہلانے والے سائل کو انصاف فراہم، اس کا مسئلہ حل اور شکایت دور کرکے اسے اطمینان دلانے میں ناکام ہے تو ریاست اپنے انتظام کی سطح پر اکائیوں اور عوام کے ساتھ انصاف کے تقاضوں کے مطابق برتاو کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ملک کی عدلیہ ہی نہیں، انتظامیہ بھی انصاف کے اصولوں کی پاسداری میں تساہل اور غفلت کی روش پر گامزن ہے۔  گویا انصاف کے دونوں ہی دائروں میں ریاست پاکستان کی حدود میں عدل و انصاف عنقا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج ایک طرف وفاق اور اس کی اکائیوں کے درمیان شدید عدم اعتماد اور ایک دوسرے سے سنجیدہ شکایات ہیں اور پھر نچلی سطح پر عوام اور ریاست کی اکائیوں اور فیڈریشن کے درمیان بھی عدم اعتماد کی خطرناک خلیج قائم ہوچکی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ ریاست کے وجود سے ہی نالاں اور شدید مایوس ہیں، دوسری طرف وہ نظام عدل جس کا کام نہ صرف سائلین کو انصاف فراہم کرنا ہے بلکہ ریاستی اداروں اور انتظامیہ، نیز فیڈریشن اور یونٹس کے برتاو میں عدل کے اصولوں کی پامالی پر نگاہ رکھنا اور ہر سطح پر انصاف کو یقینی بنانا ہے، اس کی شدید کوتاہی اور خراب کارکردگی کی بنا پر عوام کی اکثریت کیلئے عدلیہ کا وجود بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔
ملک کا دستوری نظام عدل اگر اپنے فرائض اور ذمے داریوں کی انجام دہی میں فعالیت کا مظاہرہ کرے اور بغیر کسی دباو اور خارجی و ذاتی ترجیحات کے آئین و قانون کے مطابق انصاف کی بے لاگ فراہمی یقینی بنائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ نہ صرف عدالتوں کا رخ کرنے والے سائلین کا نظام عدل پر بھروسا بحال ہوگا، لوگوں کے مسائل حل ہوں گے، بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں سر اٹھانے والی ریاست سے سنجیدہ شکایات، ناراضی، بے چینی اور محرومی اور کچلے جانے کا احساس بھی ختم ہوجائے گا۔

اس کیلئے جہاں نظام عدل کا خود احتسابی اور مقننہ کے اشتراک سے اپنے مسائل اور اپنی ناکامیوں کا ادراک اور تدارک کرنا ضروری ہے، وہاں ریاست اور عوام کے تعامل، ریاست اور اس کی اکائیوں کے نزاعات اور عوام کے مرافعات میں فوری اور سستے انصاف کو یقینی بنانے کیلئے ضروری اقدامات پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ وقت آگیا ہے کہ انصاف کو حرزجان بنالیا جائے کہ انصاف ہی ریاست کے وجود کو بقا کے خطرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے، نا انصافی کسی فرد اور جماعت کے ساتھ برتی جائے یا پھر فیڈریشن کے کسی یونٹ کے ساتھ، نتیجہ قومی سطح پر بے چینی، اضطراب اور عدم استحکام کی صورت میں ہی برآمد ہوگا۔

Related Posts