کراچی : سائٹ ایسوسی ایشن کے صدر سلیمان چاؤلہ نے کہا ہے کہ برآمدی صنعتوں کی بحالی کے لیے زیروریٹنگ سیلز ٹیکس ’’ نہ ادائیگی نہ واپسی‘‘ کی سہولت بحال کی جائے، برآمدی صنعتوں کے ساتھ تجربات بند کیے جائیں ورنہ بڑی تعداد میں برآمدی صنعتیں بند ہوجائیں گی۔
سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے صدر سلیمان چاؤلہ نے کہا ہے کہ ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ سیکٹر ملکی تاریخ میں بدترین مالی بحران کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے کیونکہ گزشتہ بجٹ میں ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ سیکٹر پر17فیصد سیلز ٹیکس عائد ہونے سے اربوں روپے کا سرمایہ حکومت کے پاس پھنسا ہوا ہے۔
ایک بیان میں موجودہ صورتحال کی تفصیلات میں انہوں نے کہاکہ گزشتہ سال وفاقی حکومت نے وفاقی بجٹ میں ٹیکسٹائل کی مقامی فروخت پرسیلز ٹیکس وصول کرنے کے لیے 17فیصدسیلز ٹیکس کا نفاذ کیا تھا جس سے برآمدی صنعت کو بھاری مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہاہے۔
برآمدکنندگان نے ایف بی آر کی جانب سے ریونیو اہداف کے حصول کے بجائے مقامی فروخت پر سیلز ٹیکس وصول کرنے اور برآمدکنندگان پر جرمانوں کے خلاف سخت احتجاج کیا۔
انہوں نے کہاکہ کورونا وبا نے برآمدی شعبے کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے اور عالمی سطح پر کئی معروف برانڈز دیوالیہ پن کا شکار ہیں جس کے اثرات پاکستان کی برآمدی صنعت پر بھی پڑے۔
شدید مالی بحران کی وجہ سے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں بند ہو گئی ہیںکیونکہ ان کے پاس اپنی صنعتوں کو چلانے کے لیے بالکل بھی رقم نہیں اور اگریہ ایک مرتبہ یہ مکمل طور پر بند ہوگئیں تو دوبارہ بحال نہیں ہوسکیں گی لہٰذابرآمدی صنعت باالخصوص ایس ایم ایز کو بچانے اور مالی بحران سے نکالنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ برآمد کنندگان کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ایس آر او 1125 کو بحال کیا جائے۔
سلیمان چاؤلہ نے ایف بی آر کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ ایف بی آر نے برآمدکنندگان کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ رقوم کی واپسی کے لیے نیا ریفنڈ سسٹم صارف دوست ہوگا جس سے بغیر کسی مداخلت کے رقوم کی واپسی یقینی بنائی جائے گی ۔
فاسٹر ریفنڈ سسٹم5برآمدی شعبوں کے لیے متعارف کروایا گیا تھا جس کے ذریعے برآمدکنندگان کو 72گھنٹوں میں سیلز ٹیکس کی مد میں رقوم واپس کی جانی تھی ۔اس سسٹم نے ابتدائی 3ماہ میں نچلی کارکردگی پرکام کیا اور پھر غیر فعال ہوگیا۔
ایسوسی ایشنز کی مشترکہ مداخلت اور کوششوں سے فیڈرل ٹیکس محتسب اور ایف بی آر نے فاسٹر سسٹم میں پائی جانے والی خامیوں اور خرابیوںکو دور کرتے ہوئے بہتر بنایا مگر آج بھی 25سے30فیصد برآمدکنندگان کوجولائی2019میں دائر کیے گئے اپنے دعوؤں کے بدلے ریفنڈز نہیں ملے جو فاسٹر کی کارکردگی اورشفافیت پر سوالیہ نشان ہے ۔
صدر سائٹ ایسوسی ایشن نے مزید کہاکہ ہمارایہ ماننا ہے کہ حکومت نے 17فیصدسیلز ٹیکس کے نفاذ اور وصولی کے ساتھ ٹیکسٹائل کی مقامی فروخت کو دستاویزی شکل دینے کا ہدف حاصل کر لیا ہے۔
برآمدات پر17فیصد سیلز ٹیکس عائد کیے جانے سے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں جس سے برآمدکنندگان کو مالی لحاظ سے بہت زیادہ دھچکا لگا ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ زیروریٹنگ سہولت بحال کرکے مشیر خزانہ کی جانب سے کیا گیا وعدہ پوا کرے۔
انہوں نے کہاکہ ایف بی آر کی جانب سے وصول شدہ سیلز ٹیکس کے مقابلے میں برآمدکنندگان کو دیا گیا ریفنڈ حقیقت پسندانہ ریلیف نہیں جوکہ برآمدکنندگان کااپنا سرمایہ ہے کیونکہ حکومت برآمدکنندگان کو کچھ ادائیگی کرتی ہے جبکہ سیلز ٹیکس ریفنڈ کی مد میں بڑی رقم غیر ضروری طور پر روک لیتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ جن برآمد کنندگان نے سیلز ٹیکس یفنڈزکے دعوے جمع کروائے تھے ان کو فروری 2020 تک ریفنڈ زموصول ہوئے جو زیرالتواء سیلز ٹیکس ریفنڈزکا صرف35فیصد ہے تاہم65فیصد سیلز ٹیکس ریفنڈز اب بھی زیر التواء ہیں جو برآمدکنندگان کے اصل سرمائے کا 12فیصد ہے جبکہ برآمدکنندگان کے منافع کی شرح 5سے 8فیصد کے لگ بھگ ہے۔
مزید برآں برآمدکنندگان کنسائمنٹ برآمد کرنے کے بعدہی ریفنڈز کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہر آنے والے کے ساتھ برآمدکنندگان کے مالی نقصانات کئی گنا بڑھ رہے ہیں جبکہ 17فیصد سیلز ٹیکس عائد ہونے سے ایس ایم ایز کے برآمدکنندگان کی مالی مشکلات میں بے پناہ اضاہ ہوگیا ہے لہٰذا برآمدی صنعتوں کی بحالی کے لیے زیروریٹنگ سیلز ٹیکس ’’ نہ ادائیگی نہ واپسی‘‘ سہولت کی بحالی انتہائی ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ وزیراعظم کے مشیربرائے خزانہ نے پوسٹ بجٹ کانفرنس میں یہ وعدہ کیا تھا کہ ریفنڈز کی ادائیگی میں کوئی تعطل نہیں آئے گا اور خودکار نظام کے تحت برآمدکنندگان کو بینک یا اسٹیٹ بینک سے بڑی رقم ملے گی اورانہیں ایف بی آر پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔
مشیر خزانہ نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ اگر نیا ریفنڈسسٹم درست کام نہیں کرے گا تو 3سے6ماہ مدت میں دوبارہ جائزہ لیا جائے گا مگر 10ماہ گزرنے کے بعد بھی ایف بی آر کا فاسٹر سسٹم توقعات پر پورا نہ اتر سکا۔
انہوں نے کہاکہ ٹیکسٹائل برآمدکنندگان بہت زیادہ رنجیدہ اور ناراض ہیں کیونکہ وہ بہت ہی کم منافع پر کاروبار کرتے ہیں جبکہ ان کا سرمایہ سیلز ٹیکس کی مد میں حکومت کے پاس پھنس کر رہ جاتاہے اور اب وہ سنجیدگی سے برآمدی صنعتوں کو بند کرنے اور کوئی دووسرا پیشہ اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں جو خوش آئند امر نہیں۔
ہمارے ملک کوغیرملکی زرمبادلہ حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تاجروں کو برآمدی کاروبار کرنے کی ترغیب دینے کی اشد ضرورت ہے جو برآمدکنندگان اپناکاروبار جاری رکھنا چاہتے ہیں انہیں عالمی کاروباری سست روی کی وجہ سے ایک اور بڑے چیلنج کا سامنا ہے کیونکہ وہ اپنی صنعتوں کو پوری صلاحیتوں کے ساتھ چلانے کے قابل نہیں ہوں گے جس کا مطلب ہے کہ ان کی پیداواری لاگت میں مزید اضافہ ہوگا اور بالآخروہ اپنی صنعتیں بند کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
صدرسائٹ ایسوسی ایشن نے حکومت سے اپیل کی کہ برآمدی صنعت کے ساتھ تجربات بند کیے جائیں بصورت دیگراگلے چند ماہ میں بڑی تعداد میں برآمدی صنعتیں بند ہوجائیں گی جو ٹیکسٹائل برآمدی صنعت سے جڑی 40متعلقہ صنعتوں پر بھی منفی اثرات ڈالے گی۔
یہ صورتحال برآمدات میں کمی، زرمبادلہ کم کرنے کا باعث بننے کے علاوہ بے روزگاری کا بھی سبب بنے گی لہٰذا بہتر ترین قومی مفاد میں حکومت کو ایس آر او 1125 اور زیروریٹنگ سیلز ٹیکس ’’ نہ ادائیگی نہ واپسی‘‘ سہولت کو بحال کرنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہاکہ گزشتہ سال جب یہ ٹیکس مسلط کیا جارہا تھا تو حکومت نے اعدادوشمار بھی ظاہر کیے تھے جس کے مطابق صرف ٹیکسٹائل سیکٹر کی 1200ارب سے زیادہ تھی اب جبکہ سال گزر چکا ہے اورکوئی بھی یہ اعدادوشمار کی جانچ پڑتال کرسکتا ہے۔
اعدادوشمار وہی ہیں جس کا صنعت نے حوالہ دیا تھا جو 300سے350ارب کے درمیان ہیں۔انہوں نے کہاکہ حکومت نے چھوٹی سی رقم کے لیے پورے ٹیکسٹائل سیکٹر کو مایوسی کی طرف دھکیل دیا اور شدید مالی بحران میں مبتلا کردیا۔
انہوںنے یقین سے کہاکہ حکومت کبھی بھی وقت پر رقم واپس نہیں کرسکے گی کیونکہ فنڈز کی کمی کے حالات میںترجیحات کو پورا کرنا ہے اوریقینا رقم کی واپسی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں۔
مزید پڑھیں: صنعتکاروں کا کورونا ایس اوپیز پر عملدرآمد کے لیے فوج کی تعیناتی کا مطالبہ