مہنگائی سے متاثرہ عوام کے لئے بری خبر یہ ہے کہ نگران حکومت نے گیس کمپنیوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے (صارفین) سے اضافی 350 ارب روپے وصول کرنے کے لیے گیس کی قیمتوں میں 193 فیصد تک اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ گھریلو صارفین کے لیے قیمتوں میں 172 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے جبکہ کمرشل صارفین کے لیے 137 فیصد اور سیمنٹ مینوفیکچررز کے لیے گیس کی قیمتوں میں 193 فیصد اضافہ یکم نومبر سے نافذ العمل ہوجائے گا۔
پالیسی نقطہ نظر سے، عبوری حکومت کی جانب سے صارفین سے 350 بلین روپے کی وصولی کے لیے حالیہ گیس کی قیمتوں کی ‘اصلاحات’ میکرو سطح پر ایک مثبت پیش رفت کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس اقدام سے اگلے ماہ 3بلین ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کے ابتدائی کارکردگی کے جائزے کو کامیابی کے ساتھ ختم کرنے کے امکانات کو بڑھانے کے لیے متوقع ہے، اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ IMF کے جولائی میں دستخط کیے گئے مختصر مدت کے قرض کے بنیادی مقصد سے مطابقت رکھتا ہے۔ مزید برآں، اس سے گیس سیکٹر کے ‘سرکلر ڈیٹ’ میں اضافے میں کمی کا امکان ہے، جس کا تخمینہ 2.1 ٹریلین روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
موسم سرما شروع ہونے سے پہلے ہی ملک کے مختلف حصوں میں گزشتہ چند ماہ سے گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے، وزیر توانائی کہتے ہیں کہ رواں برس ملک میں گیس کے ذخائر میں 18 فیصد کمی ہوئی ہے۔ گیس کی کمی کے پیش نظر ایل این جی کے دو کارگو خریدے جا رہے ہیں جس سے دسمبر میں صنعتوں کو درپیش گیس کی کمی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو جائے گا۔
تاہم، صرف مہنگی گیس ہی صارفین کے لئے واحد مسئلہ نہیں ہے، سردیوں میں ہونے والے گیس کی قلت کے باعث گھر وں میں کھانے بنانے کے حوالے پریشانی گھریلو صارفین کے لئے ایک اہم چیلنج کے طور پر سامنے آتی ہے۔ حکومت نے سردیوں میں آٹھ گھنٹے گیس کی فراہمی کی ماضی کی حکومت کی پالیسی برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب صارفین سے تمام مراعات چھین لی گئی ہیں تو گیس کمپنیوں کے نقصانات کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے صارفین کو اضافی ادائیگی کیوں کرنی پڑ رہی ہے۔ کمپنیوں سے خود نقصانات کی وصولی کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا جائے تاکہ صارفین پر اضافی بوجھ نہ پڑ سکے۔