سب کچھ برائے فروخت

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مملکتِ خداداد پاکستان آئی ایم ایف کے 22ویں پروگرام کے باعث سرکلر قرض، ایک کے بعد ایک مزید قرض اور ایک بار پھر نئے پروگرام یعنی 23ویں آئی ایم ایف پروگرام کی زد پر ہے۔ گزشتہ 40 سے 50 سالوں میں پاکستان پر بھاری قرض بڑھتا ہی چلا جارہا ہے جس میں کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کی ایک مایوس کن کوشش میں گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ نے ریاست کے اثاثوں کو ملک سے باہر ہنگامی طور پر فروخت کرنے کی منظوری دے دی۔ یہ عمل ایک آرڈیننس کی منظوری کے تحت سامنے لایا گیا جس میں 6 متعلقہ ریگولیٹری چیکس کی شرط بھی ختم کردی گئی۔

قوانین آرڈیننس کی ایک نقل کے مطابق بین الحکومتی تجارتی لین دین آرڈیننس 2022 کے ذریعے وفاقی حکومت نے خود کو اختیار دیا ہے کہ وہ زمین کے حصول کیلئے صوبوں کو لازمی عمل پیرا ہونے کی ہدایات جاری کرسکے جبکہ ماہرینِ اقتصادیات و معاشیات یہ مسئلہ حل کرنے کیلئے دیگر طریقے بتانے سے قاصر ہیں جو اب ایک پیچیدہ مساوات بنتی جارہی ہے۔

وقت آگیا ہے کہ انسان اپنی بنیادی ضروریات کو ہی پورا کرنے پر توجہ صرف کرے اور پاکستانی قوم اب غیر ضروری سہولیات کی تگ و دو چھوڑ دے جسے حل 101 کہا جاسکتا ہے۔ اس کے تحت ہم زیادہ کما کر کم قرض لینے کی حکمتِ عملی اپنا سکتے ہیں۔

دراصل یہ تمام تر مسائل کا ایک ایسا حل ہے جس کا اعتراف ہی تمام تر پیچیدگیوں کا حل نظر آتا ہے جبکہ پاکستان کے قرضوں کی کہانی ہماری 75 سالہ تاریخ سے منسلک ہے جس میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے ایک کے بعد ایک قرض لینا شروع کیا۔ پاکستان نے اپنے قیام کے کم و بیش 11 برس بعد یعنی 1958 میں پہلا آئی ایم ایف پروگرام لیا اور اس کے بعد یہ سلسلہ کبھی رکا یا تھما نہیں۔

ہو یہ رہا ہے کہ سود در سود کے باعث قرض کم ہونے میں نہیں آتا اور شرائط سخت سے سخت ہوتی جارہی ہیں۔ 31 دسمبر 2021 تک غیر ملکی کرنسی کے مشترکہ قرض کا حجم 90 اعشاریہ 5 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔

دوسری جانب اندرونی یعنی ملکی قرض کو مدِ نظر رکھے بغیر پاکستان کے حقیقی قرض کی صورتحال کا جائزہ نامکمل نظر آتا ہے جو دسمبر 2021 کے آخر تک 26 اعشاریہ 7 ٹریلین روپے یا 151 اعشاریہ 5 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا تھا، یوں پاکستان پر 2021 کے آخر تک کل قرض 242 ارب ڈالر یا جی ڈی پی کا 77 فیصد بنتا ہے جبکہ گردشی قرض اس کے علاوہ ہے جو 2008 میں 161 ارب روپے سے بڑھ کر مارچ 2022 تک 2 اعشاریہ 46 ٹریلین روپے تک جا پہنچا۔

گردشی قرض مسلسل بڑھتا جارہا ہے جس کے نتیجے میں تیل، گیس اور بجلی کی عوام کو فراہمی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ فی کس کی بنیاد پر عمر اور جنس سے قطعِ نظر ہر پاکستانی شہری کے کاندھوں پر کم و بیش 1 لاکھ 90 ہزار روپے کے قرض کا بوجھ ہے۔روپے کی قدر میں کمی اور سود در سود کے باعث یہ اعدادوشمار ہر گزرتے روز کے ساتھ کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ اب پاکستان ترقی کیلئے قرض نہیں لے رہا بلکہ بینکوں کی خدمات اور قرض کی ادائیگی کیلئے ہی مزید قرض لینا پڑ رہا ہے جو ایک تشویشناک صورتحال ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت قرض کے حصول کی جگہ ادائیگی کیلئے سخت فیصلے کرے اور ملک کے پالیسی فریم ورک پر توجہ دے۔ ہمیں مضبوط زرعی معیشت کو ترتیب و تشکیل دینے کی بھی ضرورت ہے جس سے پاکستان کو نہ صرف خوراک میں خود کفیل بنایا بلکہ مستقبل میں غذائی تحفظ بھی فراہم کیا جاسکتا ہے۔ اگر تھوڑی سی مزید ہمت کی جائے تو پاکستان عالمی سطح پر خوراک کا اہم سپلائر بھی بن کر سامنے آسکتا ہے۔ آزمائش شرط ہے۔

Related Posts