کسی بھی سیاسی جماعت میں اہم ترین لوگ اس کے رہنما اور انتخابات جیت کر عوامی حمایت کا سرٹیفکیٹ گلے میں ڈالے ہوئے اراکینِ اسمبلی یا وزراء ہوتے ہیں جو پارٹی کو آگے لے جاتے ہیں۔
کارکنان کی حیثیت ٹشو پیپرز کی سی ہوتی ہے جنہیں استعمال کرکے پھینک دیا جاتا ہے۔ اگر وہ بیمار ہوجائیں تو ان کی عیادت کیلئے جانے سے پہلے سیاسی رہنما سوچتے ہیں کہ کیا میڈیا اس کی کوریج کرنا پسند کرے گا؟
یہ میڈیا ہی ہوتا ہے جو کسی لیڈر کو پل بھر میں گیدڑ اور کسی بھی غیر اہم شخص کو سیاسی رہنما بنا کر پیش کرنے لگتا ہے جس کے پیچھے اس کے اپنے عزائم ہوسکتے ہیں۔ بلاشبہ صحافت حق اور سچ کو عوام تک پہنچانے کا نام ہے، تاہم اس پر عملدرآمد کم ہی ہوتا ہے۔
بہت کم ایسے میڈیا چینلز یا صحافی ہوتے ہیں جو موجودہ دور میں بھی سچ کی بات کریں، زیادہ تر کو اپنی ریٹنگز اور حکومت سے ملنے والے لاکھوں کروڑوں کے اشتہارات کی زیادہ فکر ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو؟ میڈیا خبر پہنچانے کا نہیں بلکہ کاروبار کا نام بن چکا ہے۔
گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں تاحال چور پولیس کھیلنے اور حکومت سے گرفتاری کے خدشے کے پیشِ نظر آنکھ مچولی میں کامیاب سابق وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ لیڈر جیل کی گرمی برداشت نہیں کرسکے، ورکر قائم ہے۔
یہاں قائم سے مراد یہ ہے کہ کارکنان نے گرمی بھی برداشت کی اور تشدد بھی۔ شیخ رشید نے کہا کہ پارٹیاں کارکنان سے چلتی ہیں، رہنماؤں سے نہیں۔ وزرا کے بیانات سے الیکشن پر شکوک و شبہاد پیدا ہورہے ہیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ 13اگست اسمبلی توڑنے کی ریڈ لائن ہے، ورنہ بحران سنگین ہوگا۔ ترکی نے معاشی تباہی کے باوجود الیکشن کرایا جس کے بعد حالات ٹھیک ہو گئے۔ اس پر صرف اتنا ہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ پاکستانی حکومت کے بقول ہمارے ہاں بھی حالات ٹھیک ہی ہیں، حالانکہ کون نہیں جانتا کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں؟
حکومت کا فرمانا ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں میں نہ صرف امن وامان ہے بلکہ آئی ایم ایف سے بھی رواں ماہ خوشخبری یعنی کہ قرض کی اگلی قسط ملنے کا امکان ہے۔ ترکی کی طرح پاکستان میں بھی حالات ٹھیک ہیں۔
صرف اس وقت جب ہم کسی غریب کے گھر کا بجھتا ہوا چولہا یا جب مہنگائی کی وجہ سے کسی کو نامناسب لباس پہنے ہوئے دیکھتے ہیں ۔۔۔۔ بے روزگاری کی وجہ سے کسی نوجوان کی خودکشی کی خبر سنتے ہیں تو ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
ایسے ہی بے شمار دیگر واقعات جب ہماری توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں تو کہنا پڑتا ہے کہ حکومتِ وقت کے معاشی مسائل حل ہونے کی خبریں درست نہیں ہیں۔ حالات کو درست دھارے میں گامزن کرنے کیلئے بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے۔
ہمارے وطن کو ان تمام نوجوانوں کی ضرورت ہے جو ہر سال دیگر ممالک میں بہتر مستقبل کی تلاش میں قانونی یا پھر غیر قانونی راستے سے دیگر ممالک میں پہنچنے کیلئے لاکھوں کی تعداد میں اپنا وطن چھوڑ دیتے ہیں۔
ضروری ہے کہ حکومتِ وقت بھی ان حقائق کا جائزہ لے اور ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے ایک قابلِ عمل حکمتِ عملی تشکیل دے۔