یورپ سے تعلق رکھنے والے ایک سفارتی وفد نے ہفتے کے روز مقبوضہ مغربی کنارے میں واقع جنین پناہ گزین کیمپ کا دورہ کیا، جسے گذشتہ ہفتے اسرائیلی فوج کی طرف سے دو روزہ فوجی آپریشن کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
جرمن خبر رساں ادارے کے مطابق وفد میں یورپی یونین، برطانیہ اور کینیڈا کے 30 نمائندے شامل تھے۔ وفد نے فلسطینی پناہ گزین جنین کیمپ میں ہونے والے نقصانات کا معائنہ اور اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی سے منسلک اسکول میں کام کی پیش رفت کا جائزہ لیا۔
یہ بھی پڑھیں:
بھارت میں اقلیتی مسائل کا جائزہ لینے کیلئے امریکا نے خاتون مسلم سفارتکار کا انتخاب کرلیا
دورے کے دوران صحافیوں کو بیانات میں، فلسطین کے لیے یورپی یونین کے نمائندے سوون کون وون برگسڈورف نے جنین کیمپ پر حملے کے دوران اسرائیل کی طرف سے طاقت کے بے تحاشا استعمال پر تنقید کی۔
برگسڈورف نے بتایا کہ سفارتی وفد کو اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات اور تباہی کے بارے میں بریفنگ دی گئی، اور انسانی امداد کو آبادی تک پہنچنے سے روکنے اور زخمیوں تک امداد میں رکاوٹ ڈالنے کے حوالے سے شہادتیں بھی سنی گئیں۔
انہوں نے کہا، “ہم نے دیکھا کہ اسرائیلی حملے کے دوران عسکریت پسندوں اور شہریوں کو نشانہ بنانے میں کوئی فرق نہیں تھا، اور اس فوجی آپریشن میں بین الاقوامی قوانین کا احترام ملحوظ نہیں رکھا گیا”۔
انہوں نے کہا “اس دورے کا مقصد صرف استحکام حاصل کرنا نہیں بلکہ یہ زندگیوں کے تحفظ اور آبادی اور انسانی ضروریات کو بنیادی خدمات فراہم کرنے کے بارے میں بھی ہے۔
برگسڈورف نے زور دیا کہ اسرائیل پر بطور ایک قابض طاقت کے لازم ہے کہ وہ “آبادی کے تحفظ کو یقینی بنائے، اور فلسطینی اتھارٹی کو مؤثر طریقے سے کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے اسے سیاسی اور مالی مدد فراہم کرے۔”
انہوں نے فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی غیر قانونی توسیع کو روکنے اور فلسطینیوں کے خلاف استعمال کیے جانے والے حد سے زیادہ تشدد کو روکنے پر زور دیا، جس سے ایک ایسے سیاسی حل تک پہنچنے کی راہ ہموار ہو جس سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو براہ راست بات چیت کرنے کا موقع ملے اور فلسطینیوں کے خلاف تشدد کو ختم کیا جائے۔
گذشتہ پیر اور منگل کو جنین پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی فوج کی فوجی کارروائی کے دوران 12 فلسطینی اور ایک اسرائیلی فوجی ہلاک ہو گئے تھے، اس حملے کو 2002 کے بعد سے سب سے زیادہ پرتشدد قرار دیا گیا تھا۔