یورپ اور نیا تھانیدار

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Outline of Quran Recitation (Dora-e-Quran)

امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد سے ہم متواتر یہ لکھتے آرہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ غیر معمولی ایجنڈہ رکھتے ہیں۔ اس ایجنڈے کی تکمیل میں اگر کوئی رکاوٹ کھڑی ہوسکتی ہے تو بس یہ کہ کوئی “حادثہ” ہوجائے۔

اپنے ایجنڈےپر پیش رفت کے دوران ٹرمپ مشرق وسطی کے بعد اب یورپ کے محاذ پر ہلچل پھیلا رہے ہیں۔ بات ہلچل تک ہی کہاں ہے۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے پچھلے تین روز کے دوران یورپ کو پہلے سکتے اور پھر نروس بریک ڈاؤن سے دوچار کیا ہے۔

جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو نوبت سینہ کوبی و آہ و زاری تک پہنچ چکی۔ مگر ٹرمپ کو تو جیسے رتی برابر پروا نہیں۔ ہو بھی کیسے ؟ یہ وہی یورپ تو ہے 80 برس سے جس کی نسل در نسل قیادت امریکی ٹاوٹوں پر مشتمل چلی آرہی ہے۔

اس پورے عرصہ کے دوران امریکی ہاں میں ان کی ہاں ہوتی اور امریکی ناں ان کی بھی ناں بن جاتی۔ اور یہ غلام اپنی اوقات اس حد تک بھول گئے کہ پچھلے چار برسوں کے دوران جو ان کے منہ میں آیا ٹرمپ کے خلاف کہہ دیا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اربوں نہیں کھربوں ڈالر امریکہ نے یورپ اور اس کی قیادت کی پرورش اور تحفظ پر خرچ کئے ہیں۔ ہم نہیں خود یورپ اور امریکہ کے تجزیہ کار صاف صاف کہہ اور لکھ رہے ہیں کہ یورپین قیادت کی حیثیت امریکہ کے غلاموں سے زیادہ کچھ نہیں مگر چونکہ امریکہ نے ان سے سلوک یہ رکھا کہ انہیں درجہ اول کے غلاموں کے طور پر دنیا کے سامنے برابری پر رکھتا سو یورپ کو اب یقین ہی نہیں آرہا کہ واقعی کوئی امریکی صدر بالآخر انہیں ان کی اوقات یاد دلا رہا ہے۔

آیئے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ چل کیا رہا ہے یورپ میں۔آپ نے شاید میڈیا میں جنرل کیتھ کیلاگ کا نام سن یا پڑھ رکھا ہو۔ مگر ہماری کسی تحریر میں یہ نام آپ پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔

صدارتی انتخاب جیتنے کے فورا بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ان صاحب کو یوکرین کے حوالے سے اپنا نمائندہ خصوصی نامزد کیا تھا۔ اور تب سے یہ کبھی روس کو ایک دھمکی تو کبھی دوسری دھمکی دیتے آرہے تھے۔ ساتھ ہی یہ روس سے جنگ بندی کا بھی مطالبہ فرماتے۔

ہم نے ان کا ذکر کبھی اس لئے نہیں کیا کہ دہائیوں سے بین الاقوامی امور کے تجزیے سو جو تجربہ ہم نے حاصل کیا ہے وہ یہ بات قبول کرنے کو تیار نہ تھا کہ ٹرمپ یوکرین جیسے بڑے معاملے کے لئے کسی لیفٹیننٹ جنرل کو نمائندہ خصوصی مقرر کریں گے۔ اگر کسی ریٹائرڈ فوجی کا ہی تقرر کرنا ہوتا تو کم از کم فور اسٹار جنرل کو کرتے، تھری سٹار کو نہیں۔ ہمارا یہی اندازہ تین روز قبل درست ثابت ہوا۔

جنرل کیتھ کیلاگ نہ صرف روزانہ کی بنیاد پر روس کے خلاف بیان بازی کر رہے تھے بلکہ پچھلے ایک ہفتے سے وہ یورپ کے دورے پر بھی تھے۔ انہیں اپنے دارالحکومتوں میں پاکر یورپین قیادت سے خوشی سنبھالے نہ سنبھل رہی تھی۔ وہ بس یہ دیکھتے رہے کہ ماسکو کے دورے سے قبل جنرل کیلاگ یورپین ممالک کے دورے پر ہیں اور بات بھی وہی کر رہے ہیں جو یورپ کا مطالبہ ہے کہ روس فوری جنگ بند کرے۔

سو ہر یورپین لیڈر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتا چلا گیا کہ ٹرمپ انہیں اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ مگر ہوش ان سب کے تین روز قبل اس وقت پراں ہوگئے جب اچانک ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے مشرق وسطی سٹیو ویٹکوف ماسکو سے ٹی وی سکرینوں پر اس اعلان کے ساتھ نمودار ہوئے کہ روس کے ساتھ خوشگوار بات چیت کے دوران دونوں ممالک کے ایک ایک قیدی کا تبادلہ طے پایا ہے۔

یورپین قیادت تو جیسے سکتے میں چلی گئی۔ کیونکہ سٹیوویٹکوف اگر ماسکو میں تھے تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ تھا کہ وہ مشرق وسطی ہی نہیں یوکرین کے حوالے سے بھی خصوصی نمائندہ ہیں۔ اسی روز امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ جاری کی کہ جنرل کیتھ کیلاگ کی بیٹی یوکرین کی جنگ میں اپنی این جی او کے ذریعے گراں قدر “خدمات” انجام دیتی آرہی ہیں۔ ظاہر سی بات ہے یہ خبر واشنگٹن پوسٹ کو لیک کی گئی ہوگی۔ جس کا مطلب تھا کہ کیتھ کیلاگ کو پیچھے دھکیلنے کا وقت ہوچکا۔

اسی روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کردیا کہ ان کی روس کے صدر ویلادیمیر پیوٹن سے فون پر ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو ہوئی ہے۔ اس گفتگو میں یوکرین، ایران، مشرق وسطی، اور ڈالر کے مستقبل سمیت کئی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس فون کال کو “گریٹ کال” قرار دیا۔ ٹرمپ نے دوسری جنگ عظیم میں روس کی قربانیوں اور فاتحانہ کردار کو بھی سراہا۔

بات یہیں تک نہ رہی بلکہ ٹرمپ نے روس اور امریکہ کے مابین بات چیت کے لئے اپنی چار رکنی ٹیم کا بھی اعلان کردیا۔ اس ٹیم میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز، سی آئی اے کے سربراہ جان ریٹکلف اور نمائندہ خصوصی سٹیو ویٹکوف شامل ہوں گے۔آپ نے نوٹ کیا اس لسٹ میں جنرل کیتھ کیلاگ شامل نہیں ؟جنرل کیتھ کیلاگ ٹرمپ کے ٹرک کی وہ بتی تھے جس کے پیچھے انہوں نے پورے یورپ کو لگا کر اصل نمائندے کو خاموشی سے ماسکو بھیج رکھا تھا۔

ٹرمپ کے اس اعلان کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ روس کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں یورپ کا کوئی نمائندہ شامل ہے اور نہ ہی یوکرین کا۔

یوکرین سے متعلق ٹرمپ نے کہا ہے کہ طے ہونے والی تفصیلات سے یوکرینی صدر زلنسکی کو آگاہ کردیا جائے گا۔ٹرمپ کا اعلان یورپ کے لئے گیارہ ہزار وولٹ کا جھٹکا ہے۔ جس یورپ نے امریکہ کی باتوں میں آکر یوکرین کے مسئلے پر اپنی معیشتیں تباہ کروا لیں اس کی اب اتنی بھی اوقات نہیں رہی کہ بات چیت میں ان کا نمائندہ بھی شامل ہو۔ گویا ٹرمپ نے یوکرین کے مسئلے سے ہی یورپ کو کک آؤٹ کردیا ہے۔

یورپ کے لئے بری خبر صرف ٹرمپ کا اعلان ہی نہیں۔ بلکہ بات اس سے بھی بہت آگے پہنچ چکی ہے۔ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے بھی نیٹو وزرائے دفاع کے اجلاس خطاب کے دوران یورپ کو مزید بری خبریں دی ہیں۔ امریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ یوکرین کا نیٹو ممبر بننا غیر حقیقی آئیڈیا ہے۔ یہ نہیں ہوگا۔ صرف یہی نہیں وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ امریکہ یوکرین کی سیکیورٹی کی ضمانت نہیں دے گا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ یوکرین مرے یا جیئے امریکہ کو اس سے کوئی غرض نہیں۔

وزیر دفاع نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یوکرین کی سیکیورٹی کی ضمات یورپ دے۔ مگر یہ بات یورپ کو چٹکی بھرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ یورپ تو خود اپنی سیکیورٹی کے لئے امریکی ضمانت کا محتاج ہے۔

جو خود کو سیکیور نہیں رکھ سکتا وہ یوکرین کی سیکیورٹی کی ضمانت کیسے دے گا ؟ امریکی وزیر دفاع نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ نیٹو ممالک کو ایک اور بری خبر بھی دی۔ پیٹ نے کہا، آنے والے دنوں میں یوکرین میں یورپین اور غیر یورپین ممالک کی فوج تعینات کی جاسکتی ہے مگر اس فوج کا نیٹو سے کوئی لینا دینا نہ ہوگا۔ نہ ہی اسے نیٹو کے آرٹیکل 5 کا تحفظ حاصل ہوگا۔

یورپ چونکہ یوکرین کا امریکہ سے بھی زیادہ خیرخواہ بننے کے چکر میں تھا۔ کئی یورپین لیڈر پچھلے تین ماہ کے دوران یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ اگر امریکہ ساتھ نہ بھی دے تو ہم یوکرین کے ساتھ کھڑے رہیں گے، اور اس کی مدد کرتے رہیں گے۔

امریکی وزیر دفاع نے درحقیقت انہی یورپین لیڈروں سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ جو بھی کرنا اپنی ذمہ داری پر کرنا۔ نیٹو یا امریکہ آپ کو بچانے نہیں آئے گا۔ نیٹو کے آرٹیکل 5 کا تحفظ نہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر یوکرین میں موجود کسی یورپی ملک کی فوج کو روس نے نشانہ بنا لیا تو امریکہ کو اس سے کوئی غرض نہ ہوگی۔وہ ملک جانے اور روس جانے۔

اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ یورپ کے ساتھ بس یہی ہوا ہے تو غلط سوچ رہے ہیں۔ جو رہی سہی کسر تھی وہ گزشتہ روز نائب امریکی صدر جے ڈی وینس نے میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں نکال دی ہے۔ جے ڈی وینس نے اپنے خطاب میں کہا

“یورپ کو چین سے خطرہ ہے، نہ ہی روس سے۔ یورپ کو اپنے اندر سے خطرہ ہے۔ سابق یوپرین کمشنر نے گزشتہ دنوں ٹی وی پر کہا، ہم نے رومانیہ کے انتخابات لپیٹ دیئے۔ اگر جرمنی میں بھی معاملات پلان کے مطابق آگے نہ بڑھے تو ہم وہاں بھی یہی کریں گے۔ اگر یورپ اپنے ووٹرز سے خوفزدہ ہے۔ اور وہ ان کی رائے کو قبول نہیں کرتا تو پھر ہم یورپ کے لئے کچھ نہیں کرسکتے۔ میں اپنے یورپین دوستوں سے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ واشنگٹن میں اب نیا تھانیدار آچکا ہے”

نائب امریکی صدر کی اس بات کا پس منظر یہ ہے کہ چند ماہ قبل رومانیہ میں تین مراحل والے صدارتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا تو کالن جرجسکو سب سے آگے تھے۔ جرجسکو یوکرین جنگ کے مخالف ہی نہیں بلکہ روس کے ساتھ اچھے تعلقات کے بھی خواہاں ہیں۔ سو ان کی متوقع جیت روکنے کے لئے یہ کہہ کر انتخابات کینسل کردیئے گئے کہ ان انتخابات میں روس نے ٹک ٹاک کے ذریعے مداخلت کی ہے۔

ایک ماہ بعد یہ دعوی غلط ثابت ہوگیا مگر رومانیہ کی سپریم کورٹ نے انتخابات کے باقی مراحل بحال کروانے سے انکار کردیا۔ ظاہر ہے یہ سب اس وقت کی لبرل امریکی حکومت کے اشارے پر ہوا تھا۔ اور یورپین لیڈروں کی دیدہ دلیری اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ جرمن ووٹرز کو بھی دھمکی دیدی گئی کہ اگر آپ نے بھی کسی نان لبرل کے حق میں ووٹ دیا تو جرمن انتخابات کا بھی یہی حال کردیا جائے گا۔

سو نائب امریکی صدر نے یورپین یونین کو خبردار کردیا ہے کہ واشنگٹن کے تھانے میں نیا کوتوال آگیا ہے۔ اب یہ کھیل مزید نہیں چلے گا۔

سوال یہ ہے کہ امریکہ یورپ کے ساتھ یہ ناقابل یقین سلوک کیوں کر رہا ہے ؟ جواب بہت ہی سادہ ہے۔ امریکہ 34 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہوچکا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیز میں بجٹ کٹوتی پر خاص توجہ ہے۔ امریکہ کا ایک بہت بڑا خرچہ یہی ہے کہ اسے یورپین ممالک ہی نہیں اس کے لیڈروں پر بھی سالانہ اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اربوں ہم احتیاطا کہہ رہے ہیں ورنہ معاملہ کھربوں میں ہوسکتا ہے۔ سو ڈونلڈ ٹرمپ یورپ کے اس بوجھ سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنے یورپین غلاموں کو آزاد کر رہے ہیں۔

اگرچہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ 9 مئی کو ماسکو میں منعقد ہونے والی وکٹری پریڈ میں شرکت کے لئے جا پہنچیں۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو پھر روس اور امریکی صدور کے مابین پہلی ملاقات سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہوگی۔ یہ پہلا موقع ہوگا جب ان دونوں ممالک کے صدور یورپ سے باہر کسی مقام پر ملاقات کریں گے۔

ورنہ سوویت دور میں بھی روسی و امریکی صدور کی ملاقات یا تو ماسکو اور واشنگٹن میں ہوتی یا پھر کسی یوپرین ملک میں۔ یوں متوقع ملاقات کی میزبانی سے یورپ کو محروم رکھنے کا فیصلہ بھی ایک بڑا اشارہ ہے۔

یہ آنے والے دن بتائیں گے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ فیصلہ بھی کرلیا ہے کہ 80 سال سے چائے پانی مانگنے والے یورپین لیڈرز سے نجات حاصل کرکے اس مشرق وسطی کو پارٹنر بنا لیا جائے جو خرچہ مانگتا نہیں دیتا ہے ؟ اگر ایسا ہی ہوا تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے نتیجے میں فلسطین کے مستقبل پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

Related Posts