کراچی میں قومی ایئر لائن کے طیارے کے حادثے کے بعد مالی بحران سے دوچارپی آئی اے کو یورپ اور برطانیہ میں پابندی کے بعد شدید دھچکا لگا ہے، حفاظتی معیار کی خلاف ورزی اور جعلی لائسنس کا معاملہ پاکستان انٹرنیشنل کی مشکلات میں مزید اضافے کا سبب بن گیا ہے۔
یورپی یونین کی ایئر سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کے پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کے انکشاف ہونے کے بعد ایئر لائن پر پابندی عائد کردی ہے ،ایجنسی نے پارلیمنٹ میں وزیر ہوا بازی غلام سرور کی تقریر کا حوالہ دیا جس کے دوران انہوں نے چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ ایک تہائی پائلٹ جعلی لائسنس پر طیارے اڑاتے رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے پائلٹوں کے لائسنس کی تصدیق کرنے کو کہا ہے اور وہ تمام ممالک جہاں پاکستانی پائلٹ یا انجینئر ایئر لائن انڈسٹری میں کام کر رہے ہیں اسی طرح کے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ اس سے پاکستانی پائلٹوں کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے لیکن حفاظت کے ضوابط سے سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالا جاسکتاہے۔
اپوزیشن کادعویٰ ہے کہ وزیر ہوا بازی کی تقریر نے ملک کا امیج خراب کردیا ہے اوراسے ایئر لائن کی قدر کو مزید کم کرنے اور اس کی نجکاری کے لئے راہ ہموار کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ وفاقی کابینہ پہلے ہی نیویارک میں پی آئی اے کے سب سے قیمتی اثاثہ روز ویلٹ ہوٹل کو فروخت کرنے پر تبادلہ خیال کرچکی ہے ۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ پی آئی اے کو برسوں نظرانداز کیاگیا اور ہم اصلاحات لا رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کاکہنا ہے کہ ایک تنظیم جس میں گذشتہ دس سالوں میں گیارہ نئے سربراہان آئے ہوں وہ صحیح طریقے سے کام نہیں کرسکتی ہیں اور ادارے میں سیاسی مدخلت ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیر ہوا بازی کی تقریر پر تنقید بھی بے بنیاد ہے کیونکہ باہمی اقدامات لازمی ہیں۔ اگرچہ پائلٹ حقیقی لائسنس رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ، لیکن اس معاملے کی پوری تحقیقات ہونی چاہیے اور اس کو ایک طرف نہیں رکھا جاسکتا۔ اس معاملے کی تفصیلی اور غیر جانبدارانہ تفتیش ہونی چاہئے ۔
یہ معاملہ ملک کے ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے ہوائی جہاز میں سفر کیا ہے یا جنہوں نے ہوائی حادثات میں اپنے پیارے کو گنوایا ہے۔ ہمیں اپنے فلائٹ سیفٹی کو ٹھیک کرنے اور اپنی عالمی ساکھ کو بہتر بنانے کے لئے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔