سوشل میڈیا کی اخلاقیات

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

انسان جو بوتا ہے، وہی کاٹتا ہے اور زبان سے جو الفاظ ادا کرتا ہے، اسے انہی الفاظ کی یاتو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے یا پھر وہ خوبصورت الفاظ اس کیلئے منافع بخش ثابت ہوتے ہیں۔

باہمی گفتگو اور سوشل میڈیا پر کی جانے والی بات چیت میں فرق یہ ہوتا ہے کہ باہمی گفتگو کرنے والا اور سامع دونوں کے مابین صرف الفاظ کا نہیں بلکہ آواز، انداز و اطوار اور شخصیت کے رکھ رکھاؤ اور چہرے کے تاثرات کا بھی تبادلہ ہوا کرتا ہے۔

موجودہ دور میں گفت و شنید کمپیوٹر یا موبائل کے ذریعے کرنے کے باعث ہم ایک دوسرے کو محض الفاظ بھیجتے اور وصول کرتے ہیں جنہیں بہتر بنانے کیلئے تصاویر کا سہارا لینا پڑتا ہے، مرچ مسالا لگانے کیلئے ان تصاویر میں تشدد یا مزاحیہ عنصر شامل کرنا پڑتا ہے۔

جب ہم ایسا کرتے ہیں تو اکثر و بیشتر بہت سی انہونی چیزیں سرزد ہوجاتی ہیں۔ جو تصویر ہم بھیجنا چاہتے ہیں، اس کی جگہ کوئی اور چلی جائے تو بات کا مطلب کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے جبکہ گفت و شنید کے دوران اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دینا کسی بھی صورت مناسب نہیں ہوتا۔

بہت سے سوشل میڈیا صارفین کے ہاتھوں ہمارے اداکار، گلوکار اور ٹی وی میزبانوں کے علاوہ دیگر مشہورومعروف شخصیات ٹرولنگ کا نشانہ بنتی رہتی ہیں لیکن جو لوگ ٹرولنگ کرتے ہیں، ضروری نہیں کہ ہر بار غلطی انہی کی ہو، غلطی اداکار، فنکار اور نامور شخصیات بھی کرسکتی ہیں۔

ایک دوسرے کو سمجھنے میں غلطی کرنا ایک الگ بات ہے تاہم ٹرولنگ کا شکار ہونے والی شخصیات کو بھی سمجھنا ہوگا کہ سوشل میڈیا صارفین میں سے بے شمار لوگ انہیں تنقید کا نشانہ محض اس لیے بناتے ہیں تاکہ ان کی بات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ جائے جسے ریچ زیادہ ہونے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

بات دوسروں تک پہنچانے کیلئے دوسروں کا گریبان پکڑ کر اپنی بات سنانا ضروری نہیں ہے، نہ ہی صرف اس لیے کہ لوگ آپ کی بات پر توجہ دیں، کسی کی تضحیک کرنا اور اسے ٹرولنگ کا نشانہ بنانا کسی بھی طرح کوئی مناسب حرکت ہوسکتی ہے۔

بہتر یہ ہے کہ سوشل میڈیا صارفین اپنی پسندیدہ شخصیات اور مشہور افراد کی عزت کریں اور انہیں بلا وجہ ٹرولنگ کا نشانہ نہ بنائیں۔ مذہب پر لیکچر دینا ہے تو خود سے چھوٹوں کو اور اپنے گھروں پر دیں، سوشل میڈیا کوئی لیکچر ہال نہیں ہے جہاں اس قسم کی باتیں کی جائیں۔

کسی بھی اداکار، فنکار یا گلوکار کو یہ کہنا کہ تمہارا پیشہ اسلام سے مطابقت نہیں رکھتا، دراصل اسے عوام الناس کے ہجوم میں بے عزت کرنے کے مترادف ہے کیونکہ اگر اسلام کا پیغام ہی پہنچانا ہے تو ایسا ذاتی طور پر میسیج بھیج کر بھی کیا جاسکتا ہے۔ پبلک پوسٹ پر ایسا کرنے سے گریز ہی بہتر ہے۔

اسی طرح بہت سے لوگ اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کیلئے فضول حرکات و سکنات کا سہارا لیتے ہیں اور نازیبا ویڈیوز پوسٹ کرتے ہیں جن پر قانون بھی حرکت میں آسکتا ہے۔ وقت آگیا کہ ہمارے سوشل میڈیا صارفین بھی فکری بالیدگی کا مظاہرہ کریں اور مشہور ومعروف شخصیات بھی اپنا دامن ٹرولنگ سے بچاتے ہوئے بے بنیاد الزام تراشی سے بچیں۔ 

Related Posts