یہ پہلا موقع نہیں جب ارطغرل غازی میں حلیمہ سلطان کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ ایسرا بلجیک نے پی ٹی وی پر ترکی کی مشہور سیریز ارطغرل غازی نشر کرنے کے بعد پاکستانی شائقین کے دل جیت لئے ہیں بلکہ دو سال قبل 2018 میں پاکستان پر ہندوستانی فضائیہ کے حملے کے بعد بالی ووڈ اداکارہ پریانکا چوپڑا کو جنگی جنون بیدار کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بناکر ایسرا بلجیک نے پاکستانی عوام کے دلوں بھرپور عزت بنائی تھی۔
ارطغرل غازی نے پوری دنیا میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ اس سلسلے کو مسلم ورژن ’گیم آف تھرونز‘ قرار دیا جا رہا ہے لیکن اس میں تخیلاتی سیریز کے مقابلے میں کہیں زیادہ اعلیٰ مواد موجود ہے۔ اس سلسلے میں خواتین کے بارے میں کوئی اعتراض نہیں کیا گیا ہے اور انہیں قائدین ، عظیم ماؤں ، ملکاؤں ، تاجروں ، جنگجوؤں اور مخالف جنس کے برابر پیش کیا گیا ہے۔ سیریز کا ہر مکالمہ فلسفیانہ ہوتا ہے اور اس کے گہری معنی ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں اور ان کی شاندار تاریخ کو منفی انداز میں پیش نہیں کیا گیا ہے جیسا کہ مغربی مواد میں دکھایا جاتاہے۔
کچھ پاکستانی اخبارات نے انسٹاگرام پر ایسرا بلجیک کے انسٹا گرم پر شائع ہونیوالی تصاویر پر کچھ لوگوں کے منفی کمنٹس پررپورٹس بھی شائع کی ہیں تاہم یہ رپورٹ پاکستانی عوام کے جذبات کی عکاس نہیں ہے۔
ماہرین تعلیم ، جرائد ، اور نام نہاد لبرلز کے ایک گروپ نے ارطغرل غازی کو پاکستان میں نشر کرنے کی اجازت دینے پر اعتراض اٹھایا ہے کہ ہمیں ملک میں ترکی یا عربی ثقافت لانے کی بجائے اپنی ثقافت کو فروغ دینا چاہئے۔
یہ پہلا ترک ڈرامہ نہیں ہے جو پاکستان میں نشر کیا گیا ہے۔ عشق ممنوع، میرا سلطان ، کوسم سلطان اور فاطمہ گل کچھ ایسی مقبول ترک سیریز ہیں جنہوں نے پاکستانی اسکرینوں میں جگہ بنائی اوریہ ڈرامے برسوں سے پاکستان میں نشر ہورہے ہیں لیکن کسی نے ایک لفظ تک نہیں کہا۔
ملک میں ارطغرل غازی سیریز پر تنقید کرنیوالے چند لبرلز کا حقیقت میں لبرل اقدار سے بھی کوئی تعلق نہیں ان کا ایجنڈا صرف مسلم طرز زندگی سے نفرت کرنا ہے اور یہ لوگ مسلم طرز زندگی کو جابرانہ سمجھتے ہیں۔ارطغرل غازی کی مخالفت کی محض ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے اسلامی اقدار کی نمائش جس میں مسلمانوں کی حکمرانی اور ایک مسلمان ہیرو کی زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔