کیا افغان متحارب گروپس میں تصفیہ ممکن ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ریاستہائے متحدہ امریکا نے پورے ملک میں لڑائی کے بعد بغیر کسی سیاسی تصفیہ سے افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کے فیصلے پر سختی سے عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ امریکی فورسز کی جانب سے یہ عمل اس وقت سامنے آیا ہے جب افغان طالبان نے ملک کے 85 فیصد حصہ پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ اب خود کرنا ہے نیٹو افواج 31 اگست تک افغانستان سے نکل جائیں گی۔ امریکی صدر جوبائیڈن طویل عرصے تک افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی پر شکوہ کرتے رہے تھے ، ان کا کہنا ہے کہ امریکا نے افغانستان میں نائن الیون کے بعد حملے کرکے اپنے مقاصد حاصل کرلیے تھے۔ یہ جنگ دو دہائیوں تک جاری رہی جس میں ہزاروں افغانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایک دہائی قبل جوبائیڈن نے اس بات کو تسلیم کرلیا تھا کہ امریکی مشن نے افغانستان میں اپنا اعتماد کھو دیا ہے جب وہ نائب صدر تھے۔ جنوری 2009 میں کابل کا تکلیف دہ سفر کے بعد افغان صدر کرزئی کے ساتھ ملاقات کی تھی جس میں انہیں اس بات پر مایوسی ہوئی تھی کہ صدر حامد کرزئی نے ان کی اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا کہ افغان جنگ ناگزیر ہے۔ وہ واشنگٹن واپس آئے اور اس کے بعد صدر اوبامہ کو ایک سخت انتباہ دیا کہ وہ مزید فوج نہ بھیجیں۔ جوبائیڈن نے اس وقت کے صدر کو اپنے دورے کی ناکامی کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔

ایک عشرے کے بعد جوبائیڈن امریکی صدر ہیں اور کچھ ماہرین کے اعتراض کے باوجود فوجیوں کی مکمل واپسی کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے فوجوں کی واپسی سے حاصل ہونے والے تمام فوائد ختم ہوجائیں گے اور طالبان دوبارہ اقتدار پر قابض ہو جائیں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی فوجوں کی واپسی سے افغانستان میں خانہ جنگی ناگزیر ہے، اور ایک نئے انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جوبائیڈن اس بات سے گریز کریں اور جنگ میں فتح کا اعلان نہ کریں، اور یہ نہ کہیں کہ امریکا نے اپنا مشن پورا کرلیا ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جنگ میں کوئی فتح حاصل نہیں ہوئی ہے۔

ایسے حالات میں امریکی کا مدمقابل ایران افغانستان میں سیاسی تصفیہ تک پہنچنے کے لئے ثالثی کی کوشش کررہا ہے۔ ایران سخت گیر صدر راسی کو اگلے ماہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے لئے تیار ہے۔ دوسری جانب طالبان مزید علاقوں پر قبضہ جما رہے ہیں، طالبان کی کامیابی سے روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ہجرت کرنے والے کہیں ان ممالک میں داخل نہ ہوجائیں۔ اب یہ علاقائی ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ متحارب فریقوں کے مابین سیاسی معاہدے کےلیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

توقع کی جارہی ہے کہ فریقین کے درمیان ثالثی کے معاہدے تک پہنچنے میں پاکستان کا کردار اہم ہوگا۔ وزیر خارجہ قریشی نے زور دے کر کہا ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کو روکنے کے لئے بجلی کی تیزی سے کوئی راستہ اپنانا ہوگا۔ پورے ملک کو کنٹرول کرنے والی متفقہ حکومت کا امکان بہت ہی کم امکان ہے۔ طالبان نے فوجی قبضے کے ذریعے حکومت بنانے کا ارادہ رکھنے کی تردید کی ہے لیکن اب بھی پرامن طور پر باہمی اتحاد کے ساتھ بقائے باہمی سیاسی تصفیہ طلب ہے۔

Related Posts