پاکستان کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو لگ بھگ تمام انتخابات اور یہاں تک کہ ضمنی انتخابات میں بھی دھاندلی کے الزامات اور بد انتظامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس عمل سے ملک میں جمہوریت کو بری طرح مجروح کیا جاتا ہے اور شہری اپنی پسند کی حکومت منتخب کرنے کے حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔
ضمنی انتخابات میں شدید نقصان اُٹھانے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے اور اب حکومت ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (ای وی ایم) متعارف کروانا چاہتی ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ یہی وہ راستہ ہے کہ جس سے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے اس فیصلے سے اختلاف رکھتی ہیں اور انہوں نے وزیر اعظم کے مشورے کو پوری طرح سے مسترد کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے خصوصی طور پر وزیر اعظم کو اپنی شرائط میں اصلاحات لانے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور وہ انتخابی اصلاحات کے عمل سے فرار ہو رہی ہے۔
آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات جمہوریت کا نچوڑ ہیں کیونکہ وہ لوگوں کو اپنی پسند کے سیاسی قائدین کا انتخاب کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔حکومت کو انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے کرانے کیلئے اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے، ملک میں شفاف انتخابات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں،کیونکہ امیدوار ووٹنگ کے نتائج کو قبول نہیں کرتے اور اقتدار میں آسانی سے منتقلی نہیں ہوپاتی۔
تحریک انصاف کی حکومت نے اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر بات چیت کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس اقدام میں تمام جماعتوں کو لازمی طور پر شامل ہونا چاہئے کیونکہ انہیں ہر انتخابات کے بعد مشترکہ طور پر شکایت ہوتی ہے۔ دیکھا جائے تو یہ لمبا اور پیچیدہ عمل ہوگا،کیونکہ اس میں ہزاروں ووٹنگ مشینیں اور انتخابی عملے کی تربیت کی ضرورت ہوگی۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ ہم انتخابی اصلاحات کے عمل کو ٹیکنالوجی پر مبنی اقدامات کی طرف جانے سے پہلے ہی شروع کردیں۔
ہندوستان نے 1990 کی دہائی میں مرحلہ وار الیکٹرانک ووٹنگ کا آغاز کیا تھا اور اب ان کا استعمال عام اور ریاستی اسمبلی کے تمام انتخابات میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر عوام مودی جیسے عوامی قائدین کا انتخاب کرتے ہیں تو بھی کوئی ووٹنگ کے نظام پر شکوک و شبہات پیدا نہیں ہوتے اور دھوکا دہی کا الزام عائد نہیں کیا جاتا، دوسری جانب پاکستان میں دھاندلی کے الزامات عائد ہوتے ہیں،جن کو حل کرنے میں بہت زیادہ وقت درکار ہوتا ہے جو اس نازک جمہوری عمل کو دھندلا دیتے ہیں۔
ممکن ہے کہ اگلے عام انتخابات تک پاکستان الیکٹرانک ووٹنگ کی طرف مکمل طور پر منتقلی نہیں کرسکے گا۔ اس سارے عمل میں بہت زیادہ پیسہ درکار ہے، لیکن حکومت کے اس عمل کو شروع کرنے کے ارادے کو سراہنا ہوگا۔ اپوزیشن جماعتوں کو اپنے اختلافات کو پس پشت رکھتے ہوئے انتخابی اصلاحات پر کام کرنا ہوگا ورنہ ہمیں ہر داغدار انتخابات کے بعد جس چیز کا مشاہدہ ہوتا ہے،دوبارہ بھی اسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔